۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
بزم استعاره

حوزہ/بزم استعارہ، قم المقدسہ میں مقیم اردو زبان شعراء کی بزم ہے۔ اس بزم کو ہر ہفتے باقاعدگی سے ایک شعری نشست منعقد کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس ہفتے کی شعری و تنقیدی نشست کا اہتمام اس بزم کے معزز رکن جناب محمد ابراہیم نوری کے گھر کیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بزم استعارہ قم المقدسہ میں مقیم اردو زبان شعراء کی اردو بزم ہے۔ اس بزم کو ہر ہفتے باقاعدگی سے ایک شعری نشست منعقد کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس ہفتے کی شعری و تنقیدی نشست کا اہتمام بزم کے معزز رکن جناب محمد ابراہیم نوری کے گھر کیا گیا۔ 

شریک شعرائے کرام:
 جناب احمد شہریارؔ، جناب ابراہیم نوریؔ، جناب سید ضیغمؔ نقوی بارہ بنکوی،جناب صائب جعفری، جناب حیدر جعفری، جناب دانش بلتستانی،جناب کاچو اظہر، جناب ارشد سراغؔ، جناب ممتاز عاطفؔ، جناب عباس ثاقب، جناب اسد کاظمی،  اور جناب سید احتشام جونپوری۔

منتخب اشعار:

جناب احمد شہریارؔ:

اتنی رونق کبھی شہر میں بھی نہ تھی، جتنی رونق ترے دم سے صحرا میں ہے
دیکھ روزِ غدیر اور یہ جمعِ غفیر، دشتِ محشر اگر ہے تو دنیا میں ہے

رات کتنی بھی تاریک ہو، غم نہیں، ہر گھڑی لب پہ نامِ علی چاہیے
صبح تو ذکرِ حیدر پہ موقوف ہے، روشنی تو علی کی تولی میں ہے

عہدِ ماضی پہ بھی ہے تصرف ترا اور فردا میں بھی ہے توقف ترا
اب خدا ہی کرے گا تعارف ترا، یہ ہنر ہم میں تھا اور نہ دنیا میں ہے

اس میں قطعا کوئی کج بیانی نہیں دونوں عالم میں حیدر کا ثانی نہیں
ہے علی میں بھی توحید کا وہ ہی رنگ جو خداوند باری تعالی میں ہے

یوں نہیں ہے فقط ہوں دلوں میں علی، رات دن ہیں ہمارے گھروں میں علی
ان کا چہرہ ہے قرآن میں جلوہ گر، ان کی آواز نہج بلاغہ میں ہے!

حشر میں کوئی پوچھے گا جب شہریار! ایک ہی ساتھ بولیں گے میں اور علی
میں کہوں گا میں ان کی رعایا میں ہوں، وہ کہیں گے یہ میری رعایا میں ہے



جناب ابراہیم نوری:

مدح جناب زینب سلام اللہ علیہا

ناشر دین احد ہے زینب
آبروئے اب و جد ہے زینب

تو ہے پروردہء آغوش علی
کتنا اونچا ترا قد ہے زینب

مدح کو تیری اٹھایا ہے قلم
تری درکار  مدد ہے زینب

لا فتی الا علی لا سیف
تیرے بابا کی سند ہے زینب

یہ عقیلہ ہے بنی ہاشم کی
نازش عقل و خرد ہے زینب

کھل اٹھے عون و محمد جسمیں
تری آغوش سبد ہے زینب

دیکھ کر ضبط ترا  دل نے کہا
صبر کی آخری حد ہے زینب

تیرے کنبے سے جو منسوب ہوا
معتبر ہر وہ عدد ہے زینب.

اس لئے شام ہے رشک جنت
کہ وہاں تیری لحد ہے زینب



جناب صائب جعفری:

کیا آخری برس یہ دنیا کا اے خدا ہے
یہ سال کیسے کیسے شہکار کھا گیا ہے

حق کی تلاش کا یہ میں ثمر ہے پایا
اب میری راہ میرے اپنوں سے بھی جدا ہے

دشنام دے کے در سے دھتکار دے مجھے کیا
میں نے تو حق کہا تو ناحق خفا ہوا ہے

شاعر کا سر قلم ہونے کا کریں گے ساماں
قرطاس اور قلم نے یہ فیصلہ کیا ہے

غسال و گورکن کو فرصت کہاں کہ دیکھیں
انسانیت کا لاشہ بے گور ہی پڑا ہے

جاؤ میاں، بتاو، یہ بھی ہے بات کوئی
شمعیں جلا جلا کر بس دیپ بجھ گیا ہے

شاید کوئی نہ سمجھے شاید سمجھ لے کوئی
سازوں پہ دل کے صائب، اردو غزل سرا ہے



جناب سید ضیغمؔ بارہ بنکوی:

در مدح جناب زینب (ع)

تیرے دشمن کو یہی بات کھلی ہے زینب
بن کے شبیر سوے شام چلی ہے زینب

اس سے معلوم ہوا بنت علی ہے زینب
جہاں خاموش ہیں سب بول رہی ہے زینب

آو عباس بہن کا یہ ہنر بہی دیکھو
کوفہ و شام میں بے تیغ لڑی ہے زینب

تا قیامت یہی رونے کے لئے کافی ہے
لوگ دربار میں بیٹھے ہیں کھڑی ہے زینب

اپنے ضیغم په بهی ہو لطف و کرم شهزادی
اس نے بچپن سے ثنا آپکی کی هے زینب



جناب ارشدؔ سراغ:

دم بہ دم جاری سفر ہے اپنے پیارے کی طرف 
جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ ۔جاودانی استعارے کی طرف 

دھڑکنیں بھی تیز ہونے لگ گئیں گاڑی کے ساتھ  
اس نے جاتے وقت کب دیکھا اشارے کی طرف 

آ رہی تھی ایک آندھی رنج و غم کی شہر میں
جاں بچانے کو سبھی دوڑے سہارے کی طرف

اپنے بچوں کو تھا سمجھانا مجھے مفہوم عشق
 اس لیے میں چل دیا تھا بہتے دھارے کی طرف 

ساری دنیا کی توجہ ۔۔۔۔چاند سے چہرے پہ تھی 
میری نظریں تھی چمکتے اک ستارے کی طرف

ایک بچہ چپ کھڑا ہے آسماں میں گاڑے آنکھ 
دیکھتا ہے کتنی حسرت سے  غبارے کی طرف

اس کی آنکھوں میں لکھی تھی آخری خواہش سراغ 
ڈوبنے والے کا چہرہ تھا کنارے کی طرف



جناب حیدر جعفری:

جو تم سے فاصلہ ہے 
کہ میرا فیصلہ ہے

میرا دل ایک بچہ 
محبت حرملہ ہے

ہمارا موم سا دل
یہ دریا آگ کا ہے

میری آنکھوں میں دیکھو
 یہی اک آئینہ ہے

میرے گھر میں ہی ٹھہرا 
غموں کا قافلہ ہے

میں حیدر ایک شاعر
وہ میرا قافیہ ہے

جناب کاچو اظہر:

دل  کی  بنجر  زمیں  آباد کروں  میں کیونکر
کسی بھولے ہوئے کو یاد کروں میں کیونکر

میرے  اشعار  میرے  درد  کا  آئینہ ہیں
دردِ دل  پر  طلبِ داد  کروں  میں  کیونکر

اسی دکھ درد کی دنیا میں وہ خوش باش ہے تو
مفت  میں دل کو بھلا  شاد  کروں میں کیونکر

وہ میرے کوچہء ویراں میں بھلا کیوں آئے
نت  نئے  راستے  ایجاد کروں میں کیونکر

جن اداوں سے ہیں گھائل دلِ شاعر اظہر
اُن اداوں پہ پھر ارشاد کروں میں کیونکر

جناب دانش بلتستانی:

منقبت در شان بی بی زینب سلام اللہ علیھا۔۔

پہلے کربل  تھی بیابان جناب زینب 
تو نے بوۓ گل ریحان جناب زینب 

مری نسلیں بھی غلامی پہ تری ناز کرے  
یہی نسبت مری پہچان جناب زینب
 
لہجہ حیدر کرار میں سن کر خطبہ 
اب بھی دشمن ہے پریشان جناب زینب 

قاب قوسین کی منزل پہ نظر آتا ہے 
کربلا میں ترا عرفان جناب زینب      

 کھیل کر جاں پہ امامت کو بچانے والی  
مقصد شہ کی نگہبان جناب زینب 

اپنے پھولوں کو فدا کر کے گری سجدے میں 
 نہیں دل میں کوئی ارمان جناب زینب 

دعوتیں دے کے بلایا تھا شہ والا کو 
کوفیو آج ہے مہمان جناب زینب 

 ہاشمی خون بہے مال خدیجہ کا لٹا  
ہو گئی بے سرو سامان جناب زینب  

وعدہء طفلی نبھانے کو چلے تھے سرور 
اب نبھاۓ گی وہ پیمان جناب زینب
 
جس طرح نہج بلاغہ ہوئی اخت القرآن 
خواہر ناطق قرآن  جناب زینب 

حسن خالق پہ ہوا ہے کوئی گویا دانش 
بول اٹھا سورہ رحمن جناب زینب


جناب ممتاز عاطف:
پھول اک جو چمن میں کھلے گا
اس جہاں کو معطر کرے گا

چاہیے پھول تک گر رسائی
خار سے واسطہ تو پڑے گا

چند لمحوں کی ہے زندگانی
کون صدیوں جہاں پہ جئے گا

کب تلک ہے یہ پردہ نشینی
کب ترے رخ سے آنچل ہٹے گا

کب سر بزم آؤ گے اور کب 
لن ترانی کا بادل چھٹے گا

جان جاں آ کہ یہ دل ہے آخر
کب تلک درد فرقت سہے گا

زخم دل تیری فرقت کا حاصل
تیرے آنے سے عاطف بھرے گا
 

جناب سیدعامر عباس نوگانوی:

رونق انجمن آل نبی ہے زینب س
پنجتن میں نہ سہی پنجتنی ہے زینب س

استعارے نہ کوئی لفظ گری ہے زینب س
آپ کی مدح تو معصوموں نے کی ہے زینب س

ناطق نہج بلاغہ کی سند پائی ہے
ایسی تفسیر کلام علوی ہے زینب س

تیرے الفاظ بھی ہم رتبۂ آیات ہوئے
تیری قرآن سے وہ ہم سخنی ہے زینب س 

اپنے ہونٹوں پہ سجائے ہوئے مدحت کے چراغ
آیتیں شام میں کہتی تھیں یہی ہے زینب س

اس سے بڑھ کر کوئی پہچان نہیں ہو سکتی 
گود میں فاطمه زہرا کی پلی ہے زینب س

جس سے تاریخ عزاداری شہ روشن ہے
لوح محفوظ پہ وہ لفظ جلی ہے زینب س

وقت رخصت یہی اسلام سے کہتے تھے حسین
دین اسلام نہ گھبرا کہ ابھی ہے زینب س

جو جواں رکتھا ہے عرفان ترے اکبر کی
 اس کے ہی پاس وسیع النظری ہے زینب س

جناب عباس ثاقب:

زندگی! یوں بھی ترے دَر سے اٹھائے گئے ہم
ایک افسانہ ہوئے اور بُھلائے گئے ہم

قصۂ شوق تھے اوروں کو سنائے گئے ہم
نغمۂ درد تھے ہر بزم میں گائے گئے ہم

اپنے اندر کی تپش نے ہمیں بجھنے نہ دیا
جل اُٹھے اور بھی جس وقت بُجھائے گئے ہم

اس کی جانب کوئی رستہ بھی نہیں جا سکتا
ایک بے نام سے بستی میں بسائے گئے ہم

کرچیاں پھیل گئیں اس کی گلی تک، اپنی
اس قدر زور سے پتھر پہ گرائے گئے ہم

اپنی قسمت میں کناروں کو کہاں ہونا تھا
کوئی موسیٰ تو نہیں تھے کہ بہائے گئے ہم

شہر کا شہر ہمیں ڈھونڈ رہا ہے، ثاقبؔ!
تجھ سے بچھڑے تو کہیں اور نہ پائے گئے ہم

تبصرہ ارسال

You are replying to: .