۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
بزم استعاره

حوزہ/بزم استعارہ قم المقدسہ میں مقیم اردو زبان شعراء کی بزم ہے۔ اس بزم کو ہر ہفتے باقاعدگی سے ایک شعری نشست منعقد کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس ہفتے کی شعری و تنقیدی نشست کا اہتمام اس بزم کے روح رواں اور بہترین تخلیقی صلاحتیوں کے مالک شاعر جناب عباس ثاقبؔ کے گھر کیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بزم استعارہ، قم المقدسہ میں مقیم اردو زبان شعراء کی بزم ہے۔ اس بزم کو ہر ہفتے باقاعدگی سے ایک شعری نشست منعقد کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس ہفتے کی شعری و تنقیدی نشست کا اہتمام بزم کے معزز رکن  اور رو ح رواں شاعر جناب عباس ثاقبؔ کے گھر کیا گیا۔ 

اس بزم میں شریک شعرا کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
 جناب احمد شہریارؔ، جناب ابراہیم نوریؔ، جناب سید ضیغمؔ نقوی بارہ بنکوی، جناب سید شمعؔ محمد رضوی، جناب حیدرؔ جعفری، جناب ارشد سراغؔ، جناب ممتاز عاطفؔ، جناب عباس ثاقبؔ، جناب سید لیاقت علی کاظمی۔

منتخب اشعار:

مولانا سید احتشام جونپوری 

یہ چلتے چلتے ہم آخر کدھر نکل آئے
یہاں خیال کو بھی بال و پر نکل آئے

ابھی تو پچھلے دنوں یہ جگہ بیاباں تھی
یہ آج کیسے یہاں اتنے گھر نکل آئے

میں اپنی دھن میں اکیلا چلا تھا صحرا کو
بہت سے شہر زدے بھی ادھر نکل آئے

جو ساحلوں کی ہواوں پہ ناز کرتے تھے
انہیں کی ناو کے اندر بھنور نکل آئے

جناب احمد شہریارؔ

اُڑتے ہیں طائروں کی طرح ہوشِ نقشِ پا
اک نقشِ پا ہے اور ہم آغوشِ نقشِ پا!

افلاک سے زیادہ یہاں کوئی بھی نہیں
حیرانِ چشمِ آئینہ بردوشِ نقشِ پا؟!

ہیہات کس سے پوچھئے رودادِ رفتگاں
کس کو خبر ہے جز لبِ خاموشِ نقشِ پا!

خاکِ قدومِ دوست سے مَلتا ہوں چشم کو
بہرِ حباب چاہیے پاپوشِ نقشِ پا

جب تک یہ خاکِ جسم نہ ہو پائمالِ خلق
رکھئے جبینِ شوق ہم آغوشِ نقشِ پا!

جن کے قدم ہوں رشکِ گل و لالہ شہریار
ہوتے نہیں وہ پاؤں فراموشِ نقشِ پا


جناب ابراہیم نوریؔ

آنکھیں مثل غزال رکھتا ہے
لب وہ مثل ہلال رکھتا ہے

اپنی آنکھوں میں اک خموش بشر
اک جہانِ سوال رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

کیا خبر طائروں کو، دام تلے
کون دانوں کو ڈال رکھتا ہے؟

ہجر جاناں بھی  اپنے دامن میں 
کیف وصل و وصال رکھتا ہے

جسکی اپنی نہیں کوئی عزَّت
سب کی عزَّت اچھال رکھتا ہے

اسکی تعظیم کیا ضروری ہے؟
جو بھی مال و منال رکھتا ہے!

اپنے معشوق کے لئے عاشق
ہاتھ پر دل نکال رکھتا ہے

جسکو بھی دیکھو آج کل نوری۔
رخ پہ گَردِ ملال رکھتا ہے

جناب حیدرؔ جعفری

لیا نہ اس کا سہارا تو جیت پکی ہے
کیا جو درد گوارا تو جیت پکی ہے

اس انتظار میں بیٹھا ہوں اک مدت سے
جو اس نے مجھ کو پکارا کو جیت پکی ہے

تمہاری داد کا اے دوست شکریہ لیکن
ہوا جو اُن کا اشارہ تو جیت پکی ہے

فریب جھوٹ سے نفرت  سے ہم نے دنیا میں
اگر کیا ہے کنارا تو جیت پکی ہے

فقط بدن کو سجانے سے کچھ نہیں ہوگا
جو روح کو بھی سوارا تو جیت پکی ہے

اگرچہ سخت ہے اے یار ہجر کے ایام
یہ وقت ٹھیک گزارا تو جیت گئے ہیں

وہ جیت کر بھی نہ جیتیں گے ہیں یقین مجھکو
نہ اپنے آپ سے ہارا تو جیپ کی ہے

خموش رہنے سے ممکن ہے جیت جائے وہ
دیا جواب کرارا تو جیت پکی ہے

سید ضیغمؔ بارہ بنکوی

--بیادِ ڈاکٹر کلبِ صادق—
اک مفکر ادیب تھا، نہ رہا
ایک عالم خطیب تھا، نہ رہا
اب مریضانِ جہل جائیں کہاں
شہر میں اک طبیب تھا، نہ رہا

پنے عمل سے کر دیا  ثابت جناب نے
پابند وقت جو ہے وہی کامیاب ہے
اجداد ما سبق کی بزرگی ہو کیا بیاں
جنت مآب ہے کوئی غفرانمآب ہے

وہ گفتگو نہ کرتے تھے ہر گز عناد کی
وہ چاہتے تھے دل سے مٹے جڑ فساد کی
تقریر سن کے آپ کو ہو جاےگا عیاں
کرتے تھے بات علم کی یا اتحاد کی

جناب ارشدؔ سراغ

غم حسین(ع) میں تسہیل ہو گیا منظر 
لہو کی دھار سے قندیل ہو گیا منظر 

رہے نہ عون و محمد نہ قاسم اکبر ع 
پلک جھپکتے ہی تبدیل ہو گیا منظر 

حسین دیکھ رہے تھےتسبم _ اصغر ع 
ستم کے تیر سے تحلیل ہو گیا منظر 

ابھی بھی شمر کے خنجر سے رس رہا ہے خون 
ہزار صدیوں کی تفصیل ہو گیا منظر 

حسین ابن علی نے کٹا دیا سر کو 
یوں دشت عشق میں تکمیل ہو گیا منظر 

جناب شمعؔ محمد رضوی

حملہ حضرت عباس سے ڈرتے تھے عدو
اسلیے باندھ دییے عابد بیمارکے ہاتھ

سید لیاقت علی کاظمی

زینبی خطبے کا اتار چڑھاؤ
جیسے بہتی ندی کا نرم بہاؤ

جیسے کالی گھٹا میں اک دم سے
جیسے بجلی کا ایک دم ٹھراؤ

انکے جملوں کی گفتگو میں ہے
صبح میں گم فضاؤں کا الجھاؤ

حرف خشبو سے، رنگ رنگ سے لفظ
جیسے گلداں میں پھول کا لہراؤ

انکی تقریر کی ردھم میں گم
ایک آتش فشاں ہے یا ہے الاؤ

جملے کہتے ہیں مجھکو غور سے  سن
نطق حیدر کا ان میں ہے گہراؤ

یوں تو دیں کے ہیں چودہ رکھوالے
آج زینب(س) ہی ہے اکیلی ناؤ

جناب ممتاز عاطف

کوئی شے نہ تھی ذات وحدت سے پہلے
وہ معبود تھا ہر عبادت سے پہلے

خدا نے کیا خلق نور محمد ص
دو عالم میں ہر شئے کی خلقت سے پہلے

ہے کردار عمراں میں پوشیدہ دیکھو
وہ ایماں کا جذبہ قرابت سے پہلے

در پنجتن کی کریمی پہ قرباں
یہاں ملتا ہے عرض حاجت سے پہلے

بنا وہ ابوزر نگاہ کرم سے
جو بے زر تھا ان کی عنایت سے پہلے

گیا کربلا تو لگا ایسا مجھ کو
میں جنت میں آیا ہوں جنت سے پہلے


جناب عباس ثاقب

ایک مدت سے ہیں پابند سلاسل آنکھیں
پس دیوار کا منظر سر دیوار تراش


جناب سیدعامر عباس نوگانوی

روں پہ وہ برستا ہوا آبشار ہے
ذہن قلم پہ مدح و ثناء کا خمار ہے

عفت کی نکہتوں پہ عجب سا نکھار ہے
باغ حیا میں آمد فصل بہار ہے

کس کے حروف عرش فصاحت کے ماہ و نجم
کس کی زباں پہ نھج بلاغہ نثار ہے

تیور وہ کس کے بن گئے صمصام با وفا
ہیبت وہ کس کی غیض رخ ذوالفقار ہے

کس کی دعا میں راز ہے فتح حسین ع کا
قبضے میں کس گردش لیل و نہار ہے 

کس کے خیال معنی ایقاں کی انجمن
اور کس کی فکر سرحد امکاں سے پار ہے

کس کے مزاج میں ہے نہاں حیدری سرشت
اور کس کی خو بتول کی آئینہ دار ہے

کس کا حجاب عالم نسواں کی آبرو
اور کس کی ذات دہر میں مریم وقار ہے

کس کی بہادری کو کرے ہاجرہ سلام
اور کون پیش حوا ہے جو بردبار ہے

کس کی نفس نفس کی ہے مقروض کربلا
اور کس کا صبر مقصد باطل شکار ہے

کس کی ہر اک نشاط ہے تسکین پنجتن
کس کی اداسی قلب محمد پہ بار ہے

کس کا یقین قاتل شک و گماں ہوا
اور کس کی ذات پیکر کل اعتبار ہے

یہ جس کی مختصر سی فضیلت بیاں ہوئی
عامر وہ بی بی زینب عالی وقار ہے

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .