۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
صاحب قصص العلماء

حوزہ/ آیت اللہ تنکابنیؒ ایک روحانی شخصیت تھے، خدا و خاصان خدا کی خاص عنایتیں ہمیشہ انکے شامل حال رہیں۔ آپ شرعی رقومات کے سلسلہ میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے، شرعی رقومات کو طلاب اور ضرورت مندوں پر خرچ کرتے تھے اورخود زہد اور سادگی کی زندگی بسر کرتے۔ آپ کی زندگی دین، طلاب کی تعلیم و تریب اور تصنیف و تالیف میں وقف تھی ۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی 

حوزہ نیوز ایجنسیعالم ربانی آیت اللہ مرزا محمد تنکابنیؒ تیرہویں صدی ہجری کے مشہور مخلص عالم با عمل تھے۔آپ  1234 یا 1235 ہجری میں ایران کے مازندران صوبہ کے تنکابن شہر کے نزدیک سلیمان آباد نامی قریہ کے ایک دینی و علمی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد مرحوم ملا سلیمان ایک متقی اور پرہیزگار عالم تھے۔

آیت اللہ تنکابنیؒ نے ابتدائی دینی اور ادبی کتابیں اپنے والد مرحوم سےپڑھیں۔ بچپن سے آپ کی ذہانت ظاہر تھی اور آپ کو حصول علم کا بے حد شوق تھا۔  والد مرحوم کی وفات کے بعد حصول علم کے لئےپہلے قزوین گئے پھر تہران کا سفر کیا اور وہاں کے ممتاز علماء سے کسب فیض کیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ اصفھان تشریف لے گئے اور وہاں موجود علماء کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ۔  

آیت اللہ تنکابنیؒ جس وقت اصفہان میں حصول علم میں مصروف تھے آپ کو اطلاع ملی کہ سلیمان آباد میں محفوظ آپ کے والد کے جنازہ کو کربلائے معلی دفن کرنے کے لئے لے جایا جا رہا ہے تو والد کی تدفین میں شرکت کی غرض سے عراق روانہ ہو گئے۔ والد مرحوم کی تدفین بعد وہیں حصول تعلیم میں مصروف ہو گئے۔  آپ نے جناب شیخ انصاریؒ اور جناب سید ابراہیم قزوینیؒ جیسے بزرگ علماء سے کسب فیض کیا اور۲۳؍ برس کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔   

آیت اللہ تنکابنیؒ نے کئی برس حوزہ علمیہ کربلائے معلی میں تدریس فرمائی ، جب وہابیوں نے کربلا پرحملہ کیا اور محبان اہلبیتؑ کے خون سے ہولی کھیلنے لگے تو آپ مجبورا ایران واپس آئے اور قزوین میں تبلیغ و تدریس میں مصروف ہو گئے۔ قزوین میں قیام کوابھی ایک برس ہی گذرا تھا کہ وہاں وبائی بیماری پھیل گئی تو آپ قزوین سے اپنے وطن تنکابن آ گئے اور وہاں مومنین کے اصرار پر حوزہ علمیہ قائم کیا اور تبلیغ و تدریس میں مصروف ہو گئے۔نیز دارالمبلغین قائم کیا تاکہ اس کے ذریعہ مختلف علاقوں میں تبلیغ دین کے فرائض انجام دئیے جا سکیں۔ 

آیت اللہ تنکابنیؒ شرعی رقومات کے سلسلہ میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے، شرعی رقومات کو طلاب اور ضرورت مندوں پر خرچ کرتے تھے اورخود زہد اور سادگی کی زندگی بسر کرتے۔ آپ کی زندگی دین ، طلاب کی تعلیم و تریب اور تصنیف و تالیف میں وقف تھی ۔ مختلف اہم موضوعات پر ۲۰۸ ؍ مفید کتابیں تالیف کی جس میں ’’قصص العلماء‘‘ زیادہ مشہور ہے ، یہ کتاب آپ کی پچاس برس کی محنت کا نتیجہ ہے جس میں ۱۵۶ ؍ علماء و فقہاء کا تذکرہ ہے۔ 

آیت اللہ تنکابنیؒ ایک روحانی شخصیت تھے، خدا و خاصان خدا کی خاص عنایتیں ہمیشہ انکے شامل حال رہیں۔ ایک بار آپ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے لئے قم مقدس تشریف لائے تو  قم پہنچتے ہی آپ کے بیوی بچے شدید مریض ہو گئے، ایسا لگتا تھا جیسے موت کھینچ کر انہیں یہاں لائی ہو ۔آپ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک میں تشریف لے گئے اور بعد زیارت دعا کی تو مریض فورا شفایاب ہو گئے۔ 

اسی طرح آیت اللہ تنکابنیؒ کے انتقال کے دو برس بعد ایک مچھلی کا شکار کرنے والا جب دریا کے کنارے پہنچا تو اس نے آپ کو دیکھا تو آپ نے اس سے کہا کہ چار مچھلی شکار کرنا دو خود لے لینا اور دو میرے گھر والوں کو دے دینا۔ آپ کو دیکھ کر اس شخص کو بہت تعجب ہوا اس نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کا تو دو برس پہلے انتقال ہو گیا تھا تو آپ نے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ علماء زندہ رہتے ہیں۔ جب وہ مچھلیاں لے کر گھر والوں کو دینے گیا اور پورا ماجرہ بتایا تو وہ لوگ بھی حیرت زدہ ہو گئے۔ 

آیت اللہ تنکابنیؒ نے ۲۸؍ جمادی الثانی ۱۳۰۲ ؁ھ کو رحلت فرمائی اور اپنے وطن سلیمان آباد میں دفن ہوئے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .