۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
آیت‌الله سید احمد علم‌ الهدی

حوزہ/ مشہد کے امام جمعہ نے کہا: دشمن ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ انقلابی افراد کے درمیان فتنہ و فساد کے ذریعہ تفرقہ پیدا کرے اور لوگوں کی خدمت جیسی عظیم عبادت کو رقابت اور مقابلے کے میدان میں تبدیل کر دے اور حسد اور منافقت کو لوگوں کے درمیان اس طرح پھیلا دے کہ جس سے ان کی خدمت کا جذبہ قدرت و طاقت کے حصول کی پیاس میں تبدیل ہو جائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مشہد کے امام جمعہ آیت اللہ سید علم الہدیٰ نے حرم امام رضا علیہ السلام میں جمعہ کے خطبوں سے خطاب کرتے ہوئے ماہ ربیع الاول کی مبارکباد دینے کو ایک نادرست رسم قرار دیتے ہوئے کہا: لوگوں کے درمیان رائج ایک عام غلطی یہ ہے کہ اس مہینے کا آغاز ایک دوسرے کو مبارکباد دے کر کرتے ہیں جبکہ بنیادی طور پر مہینہ کے پہلے دن کی مبارکباد کے بارے میں کوئی حدیث موجود نہیں ہے اور خاص طور پر مشہد مقدس میں کہ جہاں ابھی آٹھویں امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کا جنازہ زمین پر پڑا ہے لہذا یاد رہے کہ ہم ابھی  آٹھویں امام علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت پر عزاداری کر رہے ہیں۔

مشہد کے امام جمعہ نے کہا: ایک ضعیف روایت کے مطابق مامون ملعون نے امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کی شہادت میں اپنی کارستانی کو چھپانے کے لئے ان کے جسد مطہر کو تین دن تک مخفی رکھا۔البتہ یہ روایت نہایت ہی ضعیف ہے اور حقیقت یہ ہے کہ امام علیہ السلام مسموم ہونے کے بعد بھی اس مہلک زہر سے چند دن تک مقابلہ کرتے رہے۔

انہوں نے کہا: فتنہ و فساد کے خلاف جنگ خود جنگ کے میدان سے زیادہ اہم ہے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام کے 2 سال اور 4 ماہ کے دورِ امامت سے جو درس ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ آج بھی دشمن اس دور کے مامون کی طرح فتنہ پھیلانے میں مصروف ہے چونکہ وہ براہ راست مقابلہ کرنے سے ناتوان ہے۔

مشہد کے امام جمعہ نے کہا: دشمن ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ انقلابی افراد کے درمیان فتنہ و فساد کے ذریعہ تفرقہ پیدا کرے اور لوگوں کی خدمت جیسی عظیم عبادت کو رقابت اور مقابلے کے میدان میں تبدیل کر دے اور حسد اور منافقت کو لوگوں کے درمیان اس طرح پھیلا دے کہ جس سے ان کی خدمت کا جذبہ قدرت و طاقت کے حصول کی پیاس میں تبدیل ہو جائے۔

مشہد کے امام جمعہ نے  یہ بھی اپنے خطبے میں کہا: ہمیں اپنے پڑوسیوں کی حمایت سے دستبردار نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے پڑوسیوں کے بارے میں ہمارے جذبات ایسے ہونے چاہئیں کہ جیسے وہ ہمارے خاندان کا ایک فرد ہے اور یہ ہمدردی بسا اوقات عمل میں ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات نصیحت و مشورہ کی حد تک ہی کافی ہوتی ہے۔

آیت اللہ علم الہدیٰ نے کہا: البتہ ہمسایہ کو نصیحت کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ شخص آپ کے مشورہ اور رہنمائی کو قبول بھی کرتا ہو ورنہ یہ نصیحت فضول اور بیکار ہے۔

خراسان رضوی میں نمائندہ ولی فقیہ نے مزید کہا: حضرت امام سجاد علیہ السلام نے "رسالۃ الحقوق" میں پڑوسیوں کی خیرخواہی اور انہیں نصیحت اور مشورہ کے لیے ایک شرط بیان کی ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا "اگر آپ جانتے ہیں کہ یہ پڑوسی آپ کی نصیحت اور خیرخواہی کو قبول کرے گا تو اس کے لئے اس طرح سے پیش آؤ کہ جو آپ اور اس کے درمیان خفیہ رہے"۔

آیت اللہ علم الہدیٰ نے کہا: حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "نصیحت کبھی بھی دوسروں کے سامنے نہیں کرنی چاہئے اور اسے مشورہ دیتے وقت صرف آپ اور وہ موجود رہیں تاکہ پڑوسی کا راز کہیں افشاں نہ ہو۔ پڑوسی ایک دوسرے کی زندگی کے رازوں کے محافظ ہوا کرتے ہیں اور اگر وہ ایک دوسرے کی زندگی کے رازوں کو کسی جگہ یا کسی وقت افشاں کرتے ہیں تو یہ غیبت شمار ہو گی اور عملی تقویٰ کے اثر کو ختم کر دے گی"۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .