حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے شہر قم المقدسہ میں مجتمع آموزش امام خمینی (رہ) کے عارف الحسینی ہال میں مجتمع آموزش عالی تاریخ، سیره و تمدن اسلامی کی جانب سے اور گروہ تاریخ اسلامی کے تعاون سے "اموی حکومت کو مضبوط بنانے میں حوالہ جاتی گروہوں کا کردار" کے عنوان سے ایک پروموشنل نشست کا انعقاد کیا گیا۔
اس علمی نشست میں علماء، مذہبی اسکالرز، طلباء اور حوزہ کے کارکنان نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔ گروہ تاریخ اسلام کے استاد محترم جناب حجت الاسلام علی اکبر عالمیان نے نشست میں اپنا نظریہ پیش کیا اور ہیئتِ علمی جامعۃ المصطفی کے اراکین حجت الاسلام محمد دشتی اور استاد ناصر باقری بیدہندی نے اس نظریہ پر تنقید پیش کی۔
اس رپورٹ کے مطابق اس علمی نشست کے آغاز میں ہیئتِ علمی جامعۃ المصطفی کے رکن اور اس توسیعی چیئر کے ڈائریکٹر جناب حجت الاسلام سید حسین موسوی بیرجندی نے اس جیسی علمی نشست کے انعقاد پر مجتمع و گروہ تاریخ اسلام کے شعبۂ تحقیق کے اقدام کو سراہتے ہوئے موضوع بحث کا سابقہ بیان کیا اور نشست کے مقررین سے اپنا اپنا نظریہ پیش کرنے کو کہا۔
تاریخی مسائل کی وضاحت اور تجزیہ کے لیے ایک نظریاتی فریم ورک فراہم کرنا بہت ضروری اور مفید ہے۔حجت الاسلام عالمیان نے بھی اس علمی نشست کے مسئولین کے اقدام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی گفتگو پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی مسائل کی وضاحت اور تجزیہ کے لیے ایک نظریاتی فریم ورک فراہم کرنا بہت ضروری اور مفید ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ یہ استفادہ اس وقت ہی مفید واقع ہو سکتا ہے کہ جب ہم کسی تاریخی واقعے کو مسلط کرنے کے بجائے اس کا تجزیہ کرنے کے لیے نظریاتی فریم ورک کا استعمال کریں۔ انہوں نے "حوالی جاتی گروہوں" کے نظریہ کو انہی فریم ورکس میں سے ایک قرار دیا اور کہا: "میرا خیال ہے کہ اس نظریہ کو استعمال کرکے اور اسے امویوں کے دور حکومت میں لاگو کرنے سے ہم درجنوں مقالے اور تھیسز لکھ سکتے ہیں۔ لہذا میں امید کرتا ہوں کہ اس علمی کانفرنس میں شرکت کرنے والے اسکالرز بڑی احتیاط اور جدیت کے ساتھ اس پر بحث و تنقید کریں گے تاکہ اس میدان میں مقصود مسائل پر مبنی موضوعات کو تلاش کر کے علمی اور مفید مضامین اور مقالے لکھے جا سکیں۔
مجتمع آموزش عالی تاریخ، سیره و تمدن اسلامی میں گروه تاریخ اسلام کے استاد نے ان مقدمات کو ذکر کرتے ہوئے کہا: "حوالی جاتی گروہ" معاشروں کی ترقی و زوال اور حکومتوں کے زوال اور مضبوطی میں معاشرے کے لئے سماجی سرمائے کے طور پر بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔
حجت الاسلام عالمیان نے "حوالہ جاتی گروہ" کے نظریہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا: "حوالہ جاتی نظریہ ان نظریات میں سے ہے کہ اگرچہ جن کی اصل سماجی نفسیات سے متعلق ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس نظریہ کا کسی تاریخی لمحے پر اطلاق جدید نظریات میں سے ایک ہے۔ دوسرے لفظوں میں، حوالہ جاتی گروپ وہ گروہ ہیں جو عمومی اعتبار سے اور صنفی اعتبارسے فکر و اندیشہ اور عمل کے لحاظ سے معاشرے میں لوگوں کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔
علی اکبر عالمیان نے مزید کہا: میرا ماننا ہے کہ تمام ادوار میں حکومتوں کو مضبوط کرنے میں ان گروہوں کا کردار اہم اور بنیادی رہا ہے۔ اموی دور میں اس حکومت نے اس گروہ کو کہ جسے معاشرے میں بااثر افراد کا ایک گروہ سمجھا جاتا ہے اور اسے سماجی سرمایہ بھی سمجھا جاتا تھا، استعمال کرکے اپنی حکومت کے لیے شرعی و قانونی حیثیت اور مقبولیت حاصل کی۔
اس تاریخی محقق نے حوالہ جاتی گروہوں کے پہلے گروہ کو "سیاسیون"(سیاست دان) قرار دیا اور کہا: "اموی دور میں سب سے اہم حوالہ جات گروہ یہی سیاسیون اور ایسے کارکنان تھے جنہوں نے اس حکومت کی مدد کی۔ فلپ نے یہاں تک کہ بنو امیہ کی کامیابیوں کو خاص طور پر معاویہ کی کامیابیوں کو اپنے اردگرد کے لوگوں سے منسوب کیا ہے۔ خاص طور پر عمر بن عاص، مغیرہ ابن شعبہ اور زیاد ابن ابیہ۔ اس نے ان تین افراد کو معاویہ کی قیادت میں "چار سیاسی ذہین یا مسلم عرب ذہین" کے عنوان سے یاد کیا ہے۔
اموی دور حکومت میں ان تین افراد کے کردارگروہ تاریخ اسلام کے ریسرچ سیکریٹری نے اموی دور حکومت میں ان تین افراد کے کردار کو بیان کیا اور ان لوگوں کے علاوہ بنی امیہ کی دیگر بااثر سیاسی شخصیات جیسے: خالد بن عبداللہ قسری، ضحاک بن قیس فہری، حجاج بن یوسف ثقفی اور یوسف بن عمر ثقفی کا ذکر کیا کہ جنہوں نے اس حکومت کو مضبوط بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
حجت الاسلام عالمیان کی نظر میں اموی دور میں فوج ایک اور حوالہ جاتی گروہ شمار ہوتا تھا، جس کا بنیادی کردار اختلاف رائے کو دبانا اور اموی حکومت کے تسلط کو بڑھانا تھا۔
جامعۃ المصطفیٰ کے اس استاد کے مطابق ان افراد میں بُسْرِ بْن اَرْطاة، عُبَیْدُ اللّهِ بْنُ زیادِ بْنِ اَبیه، حبیب بن مسلمة فهری، ابوالأعور سُلَمی، شرحبیل بن سمط کندی، مسلم بن عقبه، مهلب بن ابی صفره اور قتیبة بن مسلم کا نام لیا جا سکتا ہے جو ہمہ وقت بنو امیہ کی خدمت کے لئے آمادہ رہتے۔
انہوں نے حمایت کی تیسری قسم کا بھی ذکر کیا جس میں "فقہاء کی خاموشی اور ان کی طرف سے لوگوں کو اس حکومت کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے بنی امیہ کے اقدامات کے خلاف صبر اور خاموشی اختیار کرنے کی دعوت" دی گئی۔
حجۃ الاسلام عالمیان کے مطابق انس ابن مالک الانصاری، حسن البصری اور عامر بن شراحیل الشعبی الکوفی جیسے لوگ ایسے ہی فقہاء میں سے تھے۔
بہت سے فقہاء ایسے تھے جنہوں نے اموی حکومت کے ساتھ تعاون کو اختیار کیا مثلا معاویہ کے دور میں کوفہ کے گورنرز جیسے: مغیرۀ بن شعبه، نعمان بن بشیر اور ضحاک بن قیس، ولایت خراسان توسط حکم بن عمرو الغفاری، والی منصوب عبدالملک و عمربن عبدالعزیز یعنی: عبادۀ بن نسی الکند در اردن، افریقا میں والی منصوب عمربن عبدالعزیز یعنی: اسماعیل بن ابی المهاجر المخزومی، والی خراج جزیره: میمون بن مهران الجزری، مسئول شرطه یزید: خالد بن معدان الکلاعی، مسئول شرطه ولیدبن عبدالملک: خالدبن اللجلاج العامری، عمربن عبدالعزیز کے سپاہیوں کے انچارج یعنی: حجاج بن ارطاۀ النخعی اور درجنوں اس طرح کے دیگر افراد۔ البتہ یقیناً ایسے فقہاء بھی تھے جنہوں نے بنی امیہ کے خلاف اقدام کیا کہ جن کا ذکر کرنا یہاں موضوع بحث نہیں ہے۔
حجۃ الاسلام عالمیان نے کئی مشہور شاعروں جیسے: اخطل، عبدالله بن همام سلولی، احوص، نابغه شیبانی، رؤبه بن عجاج و جعیل بن عجره کے ناموں کا بھی ذکر کرتے ہوئے اسی سلسلے میں ان کے کردار کو بھی بیان کیا۔
آخر میں علی اکبر عالمیان نے بنی امیہ کو تقویت دینے کے لیے ایک اور وسیلہ کے طور پر قبائل کا ذکر کیا اور یہ ذکر کرتے ہوئے کہ بنی امیہ کو قبائل کی حمایت کی اشد ضرورت تھی اور انہیں مختلف جگہوں پر اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا جیسے: قبیلہ کلب، قبیلہ کندہ، قبیلہ بنی تمیم، قبیلہ بنی ثقیف، قبیلہ "مراد" ایک عظیم قبیلہ "مذہج" کی شاخ سے اور قبیلہ بنی اسد وغیرہ۔
اپنے نظریہ کی جمع بندی کرتے ہوئے حجۃ الاسلام عالمیان نے کہا: ان گروہوں نے جو اس زمانے کے معاشرے کے لیے ایک بہت بڑے کردار کے طور پر سمجھے جاتے تھے، بنو امیہ کی حکومت کو مضبوط کرنے اور اس کے لیے عوام کی حمایت حاصل کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔
انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ ان کی اس تھیوری کو مستقبل قریب میں ایک یا چند مضامین کی شکل میں شائع کیا جائے گا اور اسے علم دوست افراد تک پہنچایا جائے گا۔
اس نشست کے بعد ناقدین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ دونوں ناقدین نے موضوع کی اہمیت اور جدید ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے نظریہ نگار کے اچھے اور جامع بیان کی تعریف کی۔ لیکن ساتھ ہی اس نظریے پر بعض اہم اعتراضات بھی کیے مثلا:
· حوالہ جاتی گروہوں کی بحث کی مکمل تردید کرنے میں ناکامی۔
· حکومت کے تصور کے مفہوم کا مشخص نہ ہونا۔
· ماہرین و اشرافیہ کے مفہوم کا مشخص نہ ہونا ۔
· موثر گروہوں کے ناموں کا ذکر نہ کرنا جیسے: مسئلوین، زہاد، تاجر، قاضی، ہنرمندان۔
· کعب الاحبار کا تذکرہ چونکہ وہ قصاص تھا نہ کہ محدث۔
· ان گروہوں کے اختیارات کی خصوصیات اور علامات کا ذکر نہ کرنا۔
· ان گروہوں (عقیدتی، مذہبی، جذباتی، روایتی، وغیرہ) کے اختیار کے جہتوں کا ذکر نہ کرنا۔
· سب سے بڑے حوالہ جاتی گروہ کے طور پر اہل بیت علیہم السلام کا تذکرہ نہ کرنا جو بنو امیہ استعمال نہیں کر پائے۔
· لوگوں کے ثقافتی فقر کے مسئلے کو امویوں کو تقویت دینے والے عوامل میں سے ایک کے طور پر ذکر نہ کرنا۔
آخر میں ڈاکٹر عالمیان نے وقت کی تنگی کے باعث ان اعتراضات میں سے کچھ کا جواب دیا اور اس نظریہ پر تنقید کرنے پر ناقدین کا شکریہ ادا کیا۔