۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
تصاویر/ دیدار جانشین دبیر ستاد امر به معروف و نهی از منکر قم با مسئول مرکز رسانه و فضای‌مجازی حوزه‌های علمیه/ حجت الاسلام والمسلمین محمد رضا برته

حوزہ / حوزہ علمیہ میں سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کے انچارج نے کہا: آنے والے دور میں وہی دین ہمیں دینداری کا سبق سکھا سکتا ہے جو سائبر اسپیس ٹیکنالوجی پر حاوی ہو اور اس میں خود گم ہو کر نہ رہ جائے بلکہ اس میدان میں ایسے ماہر اور متدین افراد کی تربیت کرے جو اسے کنٹرول کرتے ہوئے اپنے منشور کو دنیا تک پہنچا سکے۔ بلاشبہ ایسا مذہب ہی مستقبل کا مذہب ہوگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ میں سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کے انچارج حجت الاسلام والمسلمین محمد رضا برتہ نے "سوشل میڈیا میں مستقبل کا مذہب اور مذاہب کا مستقبل" کے عنوان سے "طلوع مہر انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن آف فیوچر اسٹڈیز" کے زیراہتمام منعقدہ ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا: آج یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ اس جدید دنیا اور ٹیکنالوجی اور سائبر سپیس کے راج کے دور میں مذاہب کا مستقبل کیا ہوگا اور مستقبل کا مذہب کون سا ہوگا؟

مدارس کے میڈیا اور سائبر اسپیس سینٹر کے سربراہ نے مزید کہا: تاریخی پس منظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام ایک مخصوص ہدف کے ساتھ مبعوث کئے گئے اور اگر انبیاء علیہم السلام کا خاص کام لوگوں کو دینداری اور معنویت کو فروغ دینا تھا تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے ہیں اور انہیں اس سلسلہ میں بڑی پیشرفت حاصل ہوئی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے منیجنگ ڈائریکٹر نے دنیا میں لوگوں کی مذہبی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا: دین جو کہ ماضی میں بہت سے معاشروں میں بے مثال ہوا کرتا تھا اور ثقافت، سیاست، معیشت سمیت تعلیمی میدان میں بھی اپنی حکمرانی رکھتا تھا اسے انتہائی سنجیدگی اور سوچی سمجھی سازش کے تحت مورد حملہ ٹھہرایا گیا۔

حوزہ علمیہ میں سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کے انچارج نے کہا: چاہے ہمیں یہ پسند ہو یا نہ ہولیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ جدید دنیا نے اپنے کم و بیش تنازعات کے ساتھ بعض مذاہب کی سماجی اور اجتماعی موجودگی کے لیے اس دنیا میں جگہ کو تنگ اور مشکل بنا دیا ہے۔ اب ہمیں پوچھنا ہے کہ دینداری کے اس گرتے ہوئے رجحان میں ادیان و مذاہب کی صورتحال اور ان کا مستقبل کیا ہو گا؟

حجۃ الاسلام و المسلمین برتہ نے اس تفکر کی وضاحت میں قرآن کریم کے استعاروں سے استفادہ کرتے ہوئے کہا: قرآن کریم نے اہل کتاب کا لفظ استعمال کرتے ہوئے اور اسلام کو سابقہ انبیاء کی طرف منسوب کیا اور دینِ اسلام کا تعارف عمومی دین کے طور پر کیا ہے اور تمام حق کے تسلیم کرنے والوں اور اس کی جستجو میں رہنے والوں کو ایک میدان میں جمع کر دیا ہے اور اس کے مقابلہ میں وہ افراد ہیں جو عقیدۂ توحید سے کوسوں دور ہیں جو شرک، ظلم، جبر اور استکبار کے حامی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: خصوصیت کی سورہ کی آٹھویں آیت "لَا یَنْهَاکُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْهِمْ"کے مطابق قرآن کریم مومنین کو نیکی کرنے اور ان لوگوں کے ساتھ کہ جنہوں نے اہلِ حق کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی اور دیندار افراد کے خلاف کوئی محاذ کھڑا نہیں کیا، جڑے رہنے کا حکم دے رہا ہے۔ لہذا اسی بنیاد پر ہم حق کا ساتھ دینے والوں کو آنے والی دنیا میں اپنے مذہبی نمونہ کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

حوزہ علمیہ قم کے اس استاد نے مزید کہا: آج کا نوجوان سوشل میڈیا کے تحت اپنی شناخت کو نئے سرے سے متعین کر رہا ہے اور سائبر اسپیس اس قدر خوفناک انداز سے آگے بڑھ رہا ہے کہ اب اسی کے مطابق لوگ ایک دوسرے کی شخصیت کا فیصلہ کرتے ہیں گویا سائبر اسپیس ہماری مستقبل کی شناخت بن کر رہ گئی ہے۔

حوزہ علمیہ میں سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کے انچارج نے کہا: اس حقیقت کو قبول کرنا چاہئے کہ جب ایک سپر ایپلی کیشن 45 ملین ایرانیوں کو اپنی طرف متوجہ کرے اور آج لوگ اس میں ہی اپنا زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں اور بدقسمتی سے ان کا سائبراسپیس میں گزارا گیا یہ وقت ان کے خاندانوں سے میل جول کرنے سے تین گنا زیادہ ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے منیجنگ ڈائریکٹر نے مزید کہا: سائبر اسپیس کی دنیا میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان ایک ایسی شناخت حاصل کر لیتا ہے جو وہ کبھی بھی واقعی دنیا میں حاصل نہیں کر پاتا اور وہ سائبر اسپیس میں ان خواہشات تک جو ذہنی دنیا میں ملموس اور قابلِ درک نہیں ہوتیں اپنے تئیں رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ درحقیقت سائبر اسپیس کی دنیا ہمیں ان دو جہانوں یعنی عالمِ حقیقی اور عالمِ ذہنی کے درمیان گھمائے رکھتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: اگر دینداری وہی طرز زندگی ہے اور اگر ہماری مستقبل کی دنیا سائبر اسپیس میں ہی اپنے طرز زندگی کو جانتی ہے تو وہی مذہب کل مستقبل کا دین ہوسکتا ہے جو سائبر اسپیس کے ساتھ تعامل میں صحیح اور درست فیصلہ کرتا ہے اور سوشل نیٹ ورکس بلکہ تمام ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بہتر انداز سے سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔

ہفتہ وار افق حوزہ کے مینیجنگ ڈائریکٹر نے مزید کہا: آنے والے دور میں وہی دین ہمیں دینداری کا سبق سکھا سکتا ہے جو سائبر اسپیس ٹیکنالوجی کو لیڈ کر سکے اور اس میں خود گم ہو کر نہ رہ جائے بلکہ اس میدان میں ایسے ماہر اور متدین افراد کی تربیت کرے جو اسے کنٹرول کرتے ہوئے اپنے دینی منشور کو دنیا تک پہنچا سکیں۔ بلاشبہ ایسا مذہب ہی مستقبل کا مذہب ہوگا۔

یہ نشست مستقبل کے سلسلہ میں منعقدہ اجلاس کی سترہویں اور مستقبل میں ثقافتی ہماہنگی کے سلسلہ میں منعقدہ اجلاس کی ساتویں نشست تھی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .