حوزہ نیوز ایجنسی کے رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین برتہ نے عشرہ فجر کے سلسلہ میں "سائبر اسپیس اور حوزۂ انقلابی کا مشن" کے عنوان سے مدرسہ فیضیہ قم میں منعقدہ ایک بصیرتی نشست میں خطاب کرتے ہوئے کہا: انسانی آبادیوں کی تشکیل کے آغاز میں ان افراد کا معاشرہ پر کنٹرول تھاکہ جو مضبوط جسامت کے مالک تھے اور اپنے حریفوں کو ختم کرکے وہ قبیلے کے سردار بن جاتے ۔ لیکن جوں جوں یہ سلسلہ آگے بڑھا تو قبائل وسیع تر ہوتے گئے، آبادی اور زیادہ بڑھ گئ اور بہت سے دیہات اور قصبے شہر میں تبدیل ہو گئے اور یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ اپنی اسی جسمانی طاقت کے ساتھ اس شہر کا کنٹرول بھی سنبھال سکتے ہیں یا نہیں۔ اسی دوران سیاست نام کا علم وجود میں آیا۔
حوزہ علمیہ کے میڈیا اور سائبر اسپیس سنٹر کے سربراہ نے کہا: بہت سارے مفکرین نے سوچا کہ کس طرح ایک طاقتور فرد کو اقتدار سے ہٹایا جائے اور اسے قتل یا لوٹ مار کے بغیر کسی اور شخص کے ساتھ بدل دیا جائے؟ جس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ آسان اسٹریٹجک پالیسی کے ذریعہ اقتدار کو منتقل کیا جائے اور اس نظریہ میں یا تو اس معاشرہ میں موجود برجستہ افراد کا ایک گروہ حکمران کو تبدیل کرتا یا عوامی جمہوریہ یعنی معاشرے کے تمام افراد مل کر یہ کام انجام دیتے کہ اس نظریہ کے عروج پر انقلاب اسلامی ایران نمودار ہوا اوردنیا کے سامنے ایک بہترین نمونہ پیش کیا۔
انہوں نے کہا: اگر ہم انقلاب اسلامی کی نوعیت کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں تاریخ میں مرزا شیرازی کے فتویٰ، مشروطہ آئینی عمل اور انقلاب اسلامی کی نوعیت سے آگاہ ہونا پڑے گا پھر ہم انقلاب اسلامی کی نوعیت کو سمجھ سکتے ہیں۔
حوزہ علمیہ کے میڈیا اور سائبر اسپیس سنٹر کے سربراہ نے "انقلاب اسلامی اس خطے کی تاریخی پیشرفتوں میں سے ایک اہم پیشرفت ہے، کے سلسلہ میں ایک سوال کہ اس تبدیلی کے محرکات کیا ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے کہا: اس موضوع پر بہت سے نظریات موجود ہیں اور وہ اس پیشرفت کے اردگردمختلف امور پر تبادلہ خیال بھی کرتے ہیں لیکن عوامل انفرادی، سماجی نفسیات، بین الاقوامی صورتحال، تیل کے رجحانات وغیرہ جیسی چیزوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اگر آج کے ایران میں مثبت تبدیلی کے محرکات پر نظر ڈالی جائے تو وہ صرف "مذہب اور مذہبی عقیدہ پر پختہ یقین"؛ ہے نہ کہ معاشیات یا کوئی اور مسألہ۔
حجت الاسلام والمسلمین برتہ نے کہا: کسی مذہبی عقیدے پر حملہ کرنے والوں کی شناخت کے لئے سب سے پہلے یہ بات جاننے کی ضرورت ہے کہ ان کی اس تحریک اور فعالیت کا محور و اساس کیا چیز ہے؟ قرآن کریم نے شیطان کی کارستانیوں سے پردہ اٹھایا اور کہا: اموال کی تزئین ، بدکاری کو رواج دینا اور ایک لفظ میں اگر کہا جائے تو "خوف اور ہوس" شیطان کے اہم ترین حیلوں میں سے ہیں۔
حوزہ علمیہ کے میڈیا اور سائبر اسپیس سنٹر کے سربراہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ آج موجودہ سائبر اسپیس کے ساتھ کس طرح مقابلہ کرنا چاہئے؟، کہا: سائبر اسپیس سے روبرو ہوتے ہی جو ان کی طرف سے پہلا جملہ کہا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ"سائبر اسپیس تو سالگرہ کے کیک کی مانند ہے" اور ہر شخص اس فضا سے جتنا اس کے لئے ممکن ہو سکے اتنا ہی استعمال کرتا ہے اور اس طرح اس نقطہ نظر کی وضاحت کرنے میں مختلف بیانات بھی ملتے ہیں۔مثال کے طور پر اسے چاقو سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں یعنی یہ مکمل طور پر صارف پر منحصر ہے۔وغیرہ
انہوں نے کہا: سائبر اسپیس میں دوسرا نقطہ نظر یہ کہتا ہے کہ سائبر اسپیس بین الاقوامی کھلے پانیوں کی طرح ہے جس میں تمام ممالک کو جہاز چلانے کا حق حاصل ہے اور کوئی بھی اسے روک نہیں سکتا ہے اور جس طرح ہر کوئی اس میں مچھلی کا شکار تو کر سکتا ہے لیکن کسی کو بھی اسے نقصان پہنچانے کا حق نہیں ہے۔ اس نظریہ کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ آپ بھی اس میں شرکت کریں اور شکایت نہ کریں اور جو چاہیں اس میں کریں اور منفی طور پر نہ سوچیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ کو سائبر اسپیس کی اصلاح کے بارے میں بالکل بھی نہیں سوچنا چاہئے۔آیا سائبر اسپیس کوئی بری چیز ہے جو آپ اسے بہتر بنانا چاہتے ہیں؟ آپ صرف اس کے قوانین پر عمل کرتے رہیں اور دوسرے عناوین سے آپ کا کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے۔
حجت الاسلام والمسلمین برته نے کہا:"مغرب کی مادہ پرست دنیا ہمارے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے خوفزدہ نہیں ہے بلکہ وہ ہمارے انقلاب اسلامی کی فکری تربیت سے خوفزدہ ہے۔ اسے ڈر ہے کہ آپ ان لاکھوں افراد کی افکار کودوبارہ زندہ نہ کردیں جو اپنی فکری موت کا سامنا کر چکے ہیں۔
یاد رہے کہ مغرب کی مادیت پسند دنیا کو انقلاب اسلامی کے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کے احیاء سے خوف ہے۔ اس ہتھیار کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں سائبر اسپیس کی تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔
آقای برتہ نے آخر میں کہا: اگر آج کوئی نیا پیغمبر آ کر لوگوں کی سرپرستی کو سنبھالتا ہے تو یقینا اس کا معجزہ علم و سائنس ہو گا اور یہی وجہ ہے کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی یہ کہتے ہیں کہ "جب تک میں زندہ ہوں کبھی بھی علم سے پیچھے نہیں ہٹوں گا"۔ اب سوال یہ ہے کہ سائبر اسپیس کا کنٹرول کون اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے؟ تو اس کے جواب میں یہی کہا جائے گا کہ صرف وہی جو اس علم سے بہترین آشنائی رکھتا ہو اسے اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے پس ہمیں بھی سائبر اسپیس میں انقلابی تبدیلیاں ایجاد کرنے کے لئے اس میدان میں تعلیم اور اس میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری انفراسٹرکچرز کی تشکیل ، عوامی شعور کو اجاگر کرنا اور آخر کار دنیائے سائبر اسپیس کو مغرب کے تسلط سے آزاد کروانا ہو گا تاکہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال میں ہم اپنی قوم کو ایک پرامن فضا مہیا کریں اور اس کے استعمال میں ان کے لئے آسانی پیدا کر سکیں۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس طرح کی تبدیلی کا آنا ممکن ہے اور دوسرا ہم الہی اعتقادات پر اعتماد اور نئی نسل اور اپنے ملک کی اندرونی توانائی پر بھروسہ کرتے ہوئے سائبر اسپیس کے میدان میں عظیم اسلامی انقلاب کی راہ کو جاری رکھ سکتے ہیں۔