حوزہ نیوز ایجنسی کے ساتھ گفتگو میں محترمہ زہرا شریعت ناصری نے موجودہ دنیا میں سائبر اسپیس کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سائبر اسپیس وہ ماحول ہے جس میں ارتباط، ویزیبلٹی اور ڈیٹا کی منتقلی کے ڈھانچے اور شکلیں انسانیت کی خدمت کے عنوان سے ڈیزائن اور آمادہ کی جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے معلومات اور مواصلات کی دنیا میں تمام خدمات، ہارڈ ویئرز اور سافٹ ویئرز، مختلف مواد، مواصلات و ارتباطات، ٹیمپلیٹ وغیرہ … سب سائبر اسپیس میں شامل ہیں۔
انہوں نے اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ اس بنا پر "ورچوئل" کا تصور بہت غیر مجازی اور مکمل طور پر حقیقی ہے۔ انہوں نے مزید کہا: جو احساس لفظ "ورچوئل" سے ذہن میں آتا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ گویا کہ ہم کسی غیر حقیقی تصور کا سامنا کر رہے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے چونکہ موجودہ دور میں سائبر اسپیس حقیقی زندگی کی تصویر کشی کرتی ہے اور انسانی دنیا کے بہت سے تعاملات اور واقعات کا نقطہ آغاز واقع ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا: آج سائبر اسپیس کو ایک تحقیقی پلیٹ فارم کے طور پر بھی سمجھا جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر سرچ کر کے کئی ایک مضامین، مقالے اور نئے مسائل کو پڑھا جا سکتا ہے جیسا کہ اب کئی ادارے اور انسٹی ٹیوٹس اپنے اہم مسائل کو سائبر اسپیس کے ذریعہ ہی لوگوں تک پہنچا رہے ہیں اور ایک فائل کی شکل میں محققین کے لیے دستیاب رکھتے ہیں تاکہ اس طرح اس کے تکرار وغیرہ سے بچا جا سکے اور ڈیوائس وغیرہ کے ساتھ فراہم کیے جانے والے مواد کو بھی زیرِ نظر رکھا جا سکے۔
حوزہ اور یونیورسٹی کی اس استاد نے کہا: یہ بات بھی مدِنظر رہے کہ مقالات بنیادی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ کہ جو خصوصی وزارتوں جیسے وزارت سائنس، وزارت صحت اور طبی علوم وغیرہ سے ایک علمی درجہ رکھتے ہیں کہ جو علمی-تحقیقی اور علمی-پروموشنل مضامین کو شامل ہوتے ہیں اور دوسرے نمبر پر ایسے مقالات ہیں جو کسی علمی درجہ کے بغیر ہیں کہ ایسے مقالات علمی-تخصصی مضامین کو شامل ہوتے ہیں۔ اس قسم کے جرائد کو عام طور پر مذکورہ بالا اداروں سے کوئی علمی امتیاز یا لائسنس وغیرہ حاصل نہیں ہوتا اور یہ صرف تحقیق کے شعبوں میں معاشرے کے بعض افراد میں آگاہی اور بیداری بڑھانے کے مقصد سے شائع کیے جاتے ہیں۔
مجلہ "حسنا قرآنی تحقیقات" کی مدیر نے کہا: ان مقالات اور تحقیقوں کی درجہ بندی حاصل کرنے کا راستہ بھی سائبر اسپیس ہی ہے البتہ مضامین کے لئے تلاش کے لئے مضامین کو پیش کرنے والے کے ڈیٹابیس سے بھی واقفیت ہونی چاہئے۔ سائبر اسپیس محققین، ماہرینِ تعلیم اور صاحبِ نظر افراد کے درمیان اچھے رابطہ کا ایک ایسا مناسب ذریعہ ہے کہ جس کے ذریعے افراد کو علمی سرگرمیوں اور سیمینارز اور کانفرنسوں کے انعقاد کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔
محترمہ زہرا شریعت ناصری نے کہا: اہم نکتہ یہ ہے کہ اس میدان میں ہماری تحقیق کی قسم اور ہمارا طریقہ کار سائبر اسپیس میں کام کرنے کے طریقہ کو متفاوت کر دیتا ہے۔ اگر تحقیق بنیادی ہے تو متعلقہ جرائد اور ڈیٹابیس میں مضامین تلاش کر کے ہم متعلقہ علمی مواد تک بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور اب تک مطرح کئے گئے تمام عنوانات کو بھی۔ لیکن جب پریکٹیکل اور عملی تحقیق کی بات ہوتی ہے تو اس نے گویا سائبر اسپیس میں ایک متنوع کام کو تخلیق کیا ہے کہ جس میں سوالنامے، انٹرویوز اور یہاں تک کہ مشاہدات بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اس کے علاوہ جب سائبر اسپیس ایک تحقیق کا موضوع قرار پاتی ہے تو خود سائبر اسپیس کو ایک تحقیقی متغیر کے طور پر سروے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ سائبر اسپیس کی تشخیص کرتے ہیں یا کسی چیز پر سائبر اسپیس کے اثرانداز ہونے کا اندازہ لگاتے ہیں۔
مذہبی مسائل کی اس مصنفہ اور محققہ نے انٹرنیٹ کی سست روی اور سائبر اسپیس میں جستجو کی خاص مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سائبر اسپیس میں ایک موضوع کو تلاش کرنا گویا ایک گودام میں تنکے کو تلاش کرنا ہے کیونکہ سائبر اسپیس تمام پیشرفتوں کے باوجود بھی اچھی طرح سے منظم نہیں ہوا ہے۔ موجودہ سرچ انجنوں میں اور خاص طور پر ایران میں ہم ابھی تک بہترین طریقے سے ایک علمی مطلب کو جستجو کرنے اور اس کا مکمل نتیجہ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوئے ہیں حالانکہ اکثر ویب سائٹس اپنی طرف سے جامع تلاش و جستجو کا وعدہ کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: سائبر اسپیس کی ان تمام خوبیون اور خامیوں کے باوجود یاد رہے کہ ورچوئل ماحول میں کتابیں محقق کو علمی طور پیاسا باقی رکھتی ہیں کیونکہ ان میں سے بہت سی کتابیں ورچوئل شکل میں ابھی تک دستیاب نہیں ہوئی ہیں۔ ضمناً سائبر اسپیس میں علمی موضوع کے لئے جستجو کرنے والا فرد عموما سطحی محقق ہوتا ہے جس کی وجہ سے اسے پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔