۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ علماء کرام اور قوم کے باشعور اور بیدار لوگوں کو اس رواج پاتے فتنے کا مقابلہ اور ایسے پیشہ ور افراد کا تعاقب کرنا چاہیے جو نوحے سلام اور قصائد و نعمت کو گانوں کے انداز پر لکھتے اور میوزک کے ہمراہ فلمی انداز میں پڑھتے ہیں، اور یہ رواج اب ہمارے سماج پھیلتا جارہا ہے اور جشن مقاصدہ وغیرہ کی پاکیزہ محافل کو موسیقی و غنا کے آلات و وسایل سے داغدار کیا جارہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اہل بیت فاؤنڈیشن کے نائب صدر حجت الاسلام و المسلمین مولانا سید تقی عباس رضوی کلکتوی :معاشرے میں پھیلی ہوئی بدعقیدگی، گانوں اور غزلوں کی بول پر میوزک کے ساتھ پڑھے جانے والے سوز و سلام قصیدے، نعت و منقبت کے جاری رسم و رواج پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اندھی اور بے جا عقیدت کا مظہر اور اسلام مخالف سرگرمیوں اور مذہب تشییع کو عالمی سطح پر داغدار کرنے کا ایک منصوبہ بند سازشوں کا شاخسانہ ہے جسے روکنا ہم سب کی شرعی ذمہ داری ہے ۔

مولانا نے کہا کہ:علماء کرام اور قوم کے باشعور اور بیدار لوگوں کو اس رواج پاتے فتنے کا مقابلہ اور ایسے پیشہ ور افراد کا تعاقب کرنا چاہیے جو نوحے سلام اور قصائد و نعمت کو گانوں کے انداز پر لکھتے اور میوزک کے ہمراہ فلمی انداز میں پڑھتے ہیں، اور یہ رواج اب ہمارے سماج پھیلتا جارہا ہے اور جشن مقاصدہ وغیرہ کی پاکیزہ محافل کو موسیقی و غنا کے آلات و وسایل سے داغدار کیا جارہا ہے۔

ہندوستان کے اس معروف مبلغ و محقق نے کہا کہ :اگر یہ کہا جائے تو شاید بیجا نہ ہوگا کہ محافل و جشن اور میلاد کی پاکیزہ بزم عبادات میں بھانڈ،مراثی،راگ ورنگ اور ناچنے والوں کو جمع کرنا اوربینڈ باجا ، ڈھول، تاشا اور گانے باجے کی نحوست پاکستان سے رواج پاکر اب دنیا کے مختلف حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے جو درحقیقت اسلام اور تشیع کے خلاف ایک سازش ہی نہیں بلکہ معاشرہ میں ضعیف الا عتقادی، جہالت اور اندھی عقیدت ایک موزی اور خوفناک بیماری ہے ۔

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد۔

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

اس بیماریوں میں مبتلا ہمارے ہی معروف نعت خواں اور مشہور نوحے خواں جیسے دیگر افراد ہی ملوث نظر آرہے ہیں جو دانستہ اور غیر دانستہ طور پر مذہب تشیع کے آفاقی دستور حیات اور اس کے حسین چہرے کو مخدوش کرنے کے لئے غلیظ شیطانی سازشیں کرنے میں پیش پیش ہیں۔

سوز و سلام اور نعت و منقبت وغیرہ میں میوزک کے استعمال سے ساری دنیا میں اسلام و تشیع کی تضحیک ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت و تعلیمات کی علی الاعلان توہین و ہتک حرمت بھی ہوتی ہے جس کی بنا پر اسلام اور شیعیت کے عالمی دشمنوں کو اس کے خلاف سازشیں کرنے کا جواز فراہم ہوتا ہے ۔

موصوف نے کہا کہ :چند پیشہ ور نوحہ خواں اور پروفیشنل شعراء کی ان تخریبی کارستانیوں کی بنا پر ہمارے دشمنوں اور ہماری مخالف طاقتوں کو ہمارےخلاف سازشیں کرنے کا جواز بھی فراہم ہوتا ہے ۔

مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی نے کہا کہ :اگر وقت پر اس بے راہ روی کا علاج نہ کیا گیا تو موسیقی، میوزک، شور و شرابے، تالیوں کے ساتھ ایک کسر تھمکے لگانے کی جو باقی رہ جاتی ہے وہ بھی عنقریب پوری ہوتی دکھے گی۔۔۔ لہٰذا عقیدت کو عقیدہ بنانے سے اجتناب کیا جائے اور عقیدہ کی جگہ عقیدت کو داخل مذہب کرکے اس میں ابہام و تشکیک پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اعتدال کو سامنے رکھا جائے تاکہ دشمن ہمیں بدنام نہ کرسکے ، استعماری قوتیں جو برسوں سے ہم پر غالب ہونے کی کوشش میں رات و دن مصروف کار ہے اب ان چیزوں کے ذریعے ہمیں ایک نئی دلدل میں دھکیلنا اور لہو لعب، ناچ گانوں اور گناہوں میں ہمیں مشغول کر ہمارے دلوں کو سیاہ کردینا چاہتی ہے

دشمن کی ان چیزوں سے ہوشیار رہتے ہوئے اپنی محافل و مجالس کو ان وسائل و آلات سے محفوظ رکھیں جو حرام ہیں اور دلوں میں نفاق کی بیچ بونے والی ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ کا ارشاد گرامی ہے کہ : الغناءُ یُنبت النفاق في القلب کما یُنبت الماءُ البقل۔ گانا دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی سبزہ اگاتا ہےنیز آپ سے منقول ہے کہ اس امت میں بھی زمین میں دھنسنے، صورتیں مسخ ہونے اور پتھروں کی بارش کے واقعات ہوں گے، اس پر ایک مسلمان مرد نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! یہ کب ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب گانے والی عورتیں اور باجوں کا عام رواج ہوگا اور کثرت سے شرابیں پی جائیں گی۔

مولانا نے کہا کہ :مذکورہ فرامین رسول سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ رسول و آل رسول کے چاہنے والے نا گانے بجانے کے عادی ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے رگو ریشے میں شراب رچی اور بسی ہوتی!

رسول و آل رسول کے سچے متوالوں کی گھٹی میں محمد و آل محمد علیہم السلام کے عشق و محبت کا ایسا جام پڑا ہوتا ہے جو انہیں ہر گناہ و خطا سے محفوظ رکھتا ہے۔۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .