۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
علامہ ساجد نقوی 

حوزہ/ عید کا دن ہمیں اتحاد جیسے قرآنی اور نبوی فریضے کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے جس د ن تمام امت مسلمہ بلا تفریق مسلک و فرقہ عید کی خوشیاں مناتی ہے اور مسلمان ایک دوسرے کے گلے مل کر مبارک باد دیتے ہیں۔ خوشی کا یہ موقع وحدت کا ایک عظیم مظاہرہ بھی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،راولپنڈی / عید کا دن مسلمانوں کے لئے اطاعت خدا کی توفیق نصیب ہونے پر اظہار تشکر اور اپنے محاسبے اور احتساب کا دن ہے۔ اس روز اگر ہم اپنے گذشتہ سال کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا جائزہ لیں اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں تو ہم خود احتسابی کا عمل جاری کرکے اپنی ذاتی اور معاشرتی اصلاح کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں اور پھر دنیا کو حسین جنت بناسکتے ہیں۔عید کے دن فقط رمضان المبارک کے اختتام اور روزہ کے روحانی فوائد حاصل کرکے مسرت کا اظہار کرنا ہی کافی نہیں بلکہ یہ دن ہمیں اپنے ارد گرد موجود معاشرتی مسائل کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے کہ جس طرح ہم رمضان المبارک میں عبادت اور تزکیہ نفس کے ذریعے اپنی ذاتی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس کوشش کی کامیابی کا اظہار عید کی صورت میں کرتے ہیں اسی طرح اجتماعی اصلاح کی کوششوں اور معاشرے کو تمام مسائل سے نجات دلانے کا آغاز کرنے کا عہد بھی عید کے دن کیا جانا چاہیے۔

ہم صحیح معنوں میں تب ہی عید منانے کے حقدار اور سزاوارہوں گے جب ہمارے معاشروں میں معاشرتی جرائم‘ گناہوں‘ برائیوں اور مشکلات کے خاتمے کی اُمیدواثق ہوجائے گا‘ مظلومین‘ محرومین اورپسے ہوئے طبقات کو ان کے حقوق ملنے شروع ہو جائیں گے اور معاشرے میں عادلانہ نظام‘ اسلامی روایات اور امن و امان کے قائم کے آثار آنے لگے۔
احترام آدمیت اور انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے کہ خوشی و مسرت کے جائز ذرائع سے استفادہ کیا جائے اور ایسا انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے غریب‘ پسماندہ‘غم زدہ اور پریشان حال بھائیوں کو تکلیف‘ محرومی اور دکھ کا احساس ہو۔ ہمیں برائیوں اور منکرات سے بچنا بھی بہت ضروری ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ملک میں عادلانہ نظام کے قیام‘ انسانی حقوق کی بحالی اور احترام آدمیت کے لئے جدوجہد تیز کریں۔ بطور مسلم ہماری ذمہ داری ہے کہ اس عید پر عہد کریں کہ ہم پاکستان کو ایسا مثالی عادلانہ نظام فراہم کریں گے جس طرح امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ نے اپنے سنہری اور تاریخی دور حکومت میں دیا تھا۔ مالک اشترؓ کے نام ہدایات کی روشنی میں ایسا نظام مہیا کیا جائے گا کہ جس سے ہر شخص کو اس کا حق ملے اور احترام آدمیت کا تصور قائم ہو۔

عید کا دن ہمیں اتحاد جیسے قرآنی اور نبوی فریضے کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے جس د ن تمام امت مسلمہ بلا تفریق مسلک و فرقہ عید کی خوشیاں مناتی ہے اور مسلمان ایک دوسرے کے گلے مل کر مبارک باد دیتے ہیں۔ خوشی کا یہ موقع وحدت کا ایک عظیم مظاہرہ بھی ہے۔ در اصل عید کے موقع پر مبارک باد کے مستحق ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اتحاد جیسے عظیم فریضے کے لئے کام کیا اور قربانیاں دیں۔ ہمیں اس اتحاد کو آئندہ عید تک بھی اسی جوش و جذبے اور خلوص و ولولے کے ساتھ جاری رکھنا ہوگا تاکہ ہم اسلامی طبقات میں اتحاد پیدا کرکے معاشرے کو مسائل و جرائم سے پاک کرسکیں۔

ہمیں عید الفطر کے دن اس عہد کی تجدید کرنا چاہیے کہ ہم وطن عزیز کے تمام مکاتب فکر کی تاریخی جدوجہد کے ثمرات و نتائج کو محفوظ رکھیں گے‘ ملک کو عادلانہ مملکت بنانے کے لئے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے‘ اخوت‘ اتحاد‘ محبت اور وحدت کا سفر جاری رکھیں گے‘ عالم اسلام کے مسائل و مشکلات پر نظر رکھتے ہوئے اپنے حصہ کی جدوجہد کرتے رہیں گے‘ دنیا بھر میں چلنے والی آزادی و حریت کی تحاریک کی ہر ممکن اخلاقی مدد اور ان کے ساتھ تعاون وہمکاری کی کوشش کرتے رہیں گے۔ جبکہ پاکستان سے منفی سیاست کے خاتمے‘ دہشت گردی و فرقہ پرستی کے خاتمے‘ مذہبی‘ گروہی اور لسانی تعصبات کے خاتمے‘ جہالت‘ بے روزگاری‘ بدعنوانی‘ رشوت ستانی‘ منشیات فروشی‘ ڈکیتی‘ بے راہروی‘ فحاشی‘ اخلاقی جرائم اور تمام معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد کرتے رہیں گے اور ملک کو جنت کا گہوارہ بناکر دم لیں گے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .