حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ فطری تقاضا ہے کہ جب بھی انسان کو مشکلات گھیرے میں لیتی ہیں، اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کی انتہا ہوتی ہے، انسانی معاشروں میں نا انصافی، بے عدلی، تشدد اور برائیوں کا رواج ہوتا ہے تو وہ ایک مسیحا کے منتظر ہوتے ہیں کہ جو انہیں مشکلات سے نکالے ظلم کا خاتمہ کرکے معاشرے کو تمام برائیوں سے پاک کرکے ایک پرامن، صالح اور نیکی پر مبنی معاشرہ قائم کرے۔ دور حاضر بھی اسی قسم کی مشکلات اور مسائل کا مرقع بن چکا ہے اور ہر انسان ایک مسیحا کے انتظار میں ہے یہی فکر، سوچ اور انتظارہی دراصل نظریہ مہدویت ہے۔
15 شعبان المعظم شب برات اور حضرت امام مہدی ؑ منتظر کی ولادت باسعادت کے موقع پر اپنے پیغام میں علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ پندرہ شعبان کی بابرکت رات اطاعت خداوندی کی تجدید اور خواہشات نفسانی کی نفی کرکے نفس امارہ کو شکست دینے کے عہد اور نئے عزم وحوصلے کے ساتھ زندگی کا آغاز کرنے کا حسین موقع فراہم کرتی ہے ۔ اس با فضیلت رات کے بارے رسول گرامی اسلام نے فرمایا کہ اس رات رزق تقسیم ہوتا ہے اموات کا تعین کیا جاتا ہے اور اس سال کے حاجیوں کا تعین کیا جاتا ہے ۔ اس رات کے مزید فضائل کا ذکر امام باقر ؑکی اس روایت میں آیا ہے جس میں امام نے فرمایا کہ شب نیمہ شعبان، شب قدر کے بعد افضل ترین رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خاص فضل فرماتا ہے، اپنے فضل سے ان کو معاف فرماتا ہے پس قرب خدا وندی کے حصول کیلئے کوشش کر و ۔ اس تناظر میں اس بابرکت رات میں کرونا وبا، آفات و بلیات، بحرانوں سے نجات ،ملکی سلامتی اور امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے دعائیں کی جائیں۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے مزید کہا کہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ میں مہدی موعود کے تصور اور ان کے ظہور کے بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں اسلامی مآخذ میں تصور مہدی ؑ کو بہت واضح انداز میں ابھارا گیا ہے اور ان کے ظہور اور قیام کے سلسلے میں بہت زور دیا گیا ہے۔ درحقیقت اس کا تعلق اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام کے ساتھ ہے تاکہ اس نظام کے قیام کی جدوجہد اور ظلم وجور اور ناانصافی کو مٹانے کی کوششیں جاری رہیں دنیا کو عدل وانصاف سے بھرنے کا عہد پورا ہوسکے۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ امت مسلمہ کے تمام مسالک اور مکاتب فکر اسلامی مآخذ کو تسلیم کرتے ہیں لہذا انہیں فروعی اورسطحی اختلافات کو اہمیت نہیں دینی چاہیے بلکہ مشترکہ طور پر ہر وقت عدل اجتماعی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے کیونکہ اسلام کے اس نوعیت کے حامل تصور مہدی ؑ سے دوسرے تمام ادیان پر اسلام کی برتری واضح ہوجاتی ہے۔ اس انداز کاتصور کسی دوسرے دین میں نہیں پایا جاتالہذا تمام مسلمانوں کو مل کر ظلم وجور کے خاتمے اور امام مہدی ؑ کے ظہور اور قیام کے لیے میدان ہموار کرنے کی کوششیں کرنی چاہئیں تاکہ اسلام کے غالب دین کے طور پر سامنے آنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔