۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ یہ کہنا شاید حق بجانب ہو کہ مدارس پر مالکانہ تصرف کا حق رکھنے والے افراد کے آپسی اختلاف ،باہمی جھگڑوں اور ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی جنگ سے مدارس کو بہت نقصان پہنچا اور ہمارے مدارس علمیہ آج مختلف مشکلات اور زوال و انحطاط کا شکار ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کی معروف دینی اور سماجی شخصیت حجت الاسلام تقی عباس رضوی نے مدارس پر مسلط موروثی عذاب کا خاتمہ ہی طلباء و طالبات کے روشن مستقبل کی نوید ہے قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا شاید حق بجانب ہو کہ مدارس پر مالکانہ تصرف کا حق رکھنے والے افراد کے آپسی اختلاف ،باہمی جھگڑوں اورایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی جنگ سے مدارس کو بہت نقصان پہنچا اور ہمارے مدارس علمیہ آج مختلف مشکلات اور زوال و انحطاط کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لہذا تقسیم وراثت کی جنگ ،آپسی رسہ کشی سے اجتناب اوراقوام عالم کی علمی ترقیوں کے تناظر میں مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم و تکنالوجی کی فراہمی اور انہیں بااختیار بنانے کی حکمت عملیاں ترتیب دی جائیں اور مدارس کو معیاری تعلیم و دیگر سہولیات فراہم کرتے ہوئے اپنے اپنے مدارس کی تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ ان میں رہنے والے قوم کے نونہالوں کی بہتر اور ایک شاندار مستقبل کی جدوجہد کی انوکھی مثال پیش کی جائے ، نیز مدارس سے جڑے معلمین و معلمات اپنے تدریسی امور میں جدید تکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لائیں اس لئے کہ مدارس علمیہ میں طلباء و طالبات کے نہ آنے کی ایک وجہ یہاں فکری جمود ہے، جہاں عصری تقاضوں کے پیشِ نظر نہ طلبا اپنےروشن مستقبل کی راہ ہموار دیکھ رہےہیں اور نہ ہی والدین بچوں کو حوزوی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں خاصہ دلچسپی لے رہے ہیں۔

مزید اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بات سچ اور حق و صداقت پر مبنی ہے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی ،تہذیب وتمدن اور علوم ومعارف کے موجد و مخترع ہونے کے دعویداری کے بعد بھی تعلیم کے میدان میں اقوام عالم میں بہت پیچھے ہیں اور اس کا سبب مدارس پر مسلط موروثی نظام کی ترجیحات میں سوائے ذاتی مفاد و منفعت کہ کبھی بھی تعلیم کا فروغ شامل نہیں رہا !‘‘۔

مولانا تقی عباس نے کہا کہ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں خاص کر حوزات علمیہ کی اہمیت و افادیت کو سمجھیں اور انہیں موروثی عذاب میں مبتلا کرنے کے بجائے دینی تعلیم و تہذیب اور اسلامی ثقافت کے فروغ کا ذریعہ قرار دیا جائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .