۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
محمد روح اللہ

حوزہ / جناب محمد روح اللہ نے پاکستان میں سیلاب کی موجودہ تباہ کاریوں کے پیشِ نظر " ہمارے ملک میں سیلابی صورتحال کے دو پہلو" کے عنوان سے تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

تحریر: محمد روح اللہ

حوزہ نیوز ایجنسی | ایک پہلو اس سیلاب کی تباہ کاریوں کے عوامل کا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں سیلاب کی اس ساری صورتحال کی ذمہ دار وہ سیاسی پارٹیاں ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے دور حکومت میں ڈیمز نہیں بنائے بلکہ اگر کسی دوسرے دور حکومت میں ڈیمز بنانے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے اس کی مخالفت بھی کی۔

اگر آج ہمارے ملک میں ڈیمز بنے ہوتے تو ملک کی ہرگز یہ صورتحال نہ ہوتی جو ابھی ہے۔ انہوں نے صرف اپنی جیبیں بھری ہیں اور ملک کا جنازہ نکالا ہے لیکن ابھی تک ان کی ہوس ختم نہیں ہوئی اور ملک کو اس موڑ پر لے جانے کے درپے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔

پورا ملک ڈوبا ہوا ہے اور یہ غیرملکی دوروں اور سیرسپاٹوں میں مشغول ہیں اور بجائے یہ کہ آئیں اور عوام کو مشکلات سے نکالیں وہاں سے بیٹھ کے صرف ہمدردی کے بیانات دے رہے ہیں۔ ان کے یہ بیانات عوام کے درد کا مداوا نہیں کر سکتے۔ اگر ہماری عوام نے ایک دفعہ ان کو اور منتخب کر لیا تو اس ملک کا حال سری لنکا سے بھی برا ہو گا۔

دوسرا پہلو دنیا اور دنیاوی چیزوں کے فانی ہونے کا ہے۔ وہ چیزیں جن کو حاصل کرنے میں ہم اپنی پوری عمر صرف کر دیتے ہیں وہ چند لمحوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ چاہے وہ گھر ہو، چاہے ہنی مون جیسا بڑا ہوٹل ہو، گاڑیاں ہوں یا مویشی۔ سب کچھ چند ہی لمحوں میں ہمارے سامنے سیلاب کی نذر ہو جاتے ہیں اور ہم بے بسی کے عالم میں فقط دیکھتے رہ جاتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کر سکتے اور بعض جگہوں پر تو ہم اپنے آپ کو بھی نہیں بچا پاتے اور ایک چٹان پر کھڑے ہو کر اپنی زندگی کی بھیک مانگتے ہیں کہ شاید ہمیں کوئی بچا لے لیکن کوئی ہمیں بچانے نہیں آتا اور ہم سیلاب کی لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کتنے بے بس ہیں ہم لوگ۔

پھر کیوں ہماری ذات میں اتنا غرور ہے جب کہ حقیقت میں ہم اتنی بے بس مخلوق ہیں تو یہاں پر ہم سب کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ یہ دنیا جو ہمیں بہت عزیز ہے یہ سب قرآن کریم کے مطابق ایک کھیل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے یہ دنیا صرف امتحان اور آزمائش کی جگہ ہے۔کیوں ہم اس سے اتنی وابستگی اختیار کر لیتے ہیں؟ کیوں ہم یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں جیسے ہم اور ہماری شان و شوکت تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہے گی اور یہ بلائیں اور مصیبتیں تو صرف دوسروں کے لئے ہیں۔

ہمیں اس خوش فہمی سے نکلنا ہو گا اور دنیا کی اس حقیقت کو سمجھنا ہو گا کہ ہم یہاں صرف چند دنوں کے مہمان ہیں ہم یہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنے نہیں آئے اور جو مال و دولت خدا نے ہمیں دیا ہے یہ بھی فانی ہے ہم اسے اپنے ساتھ قبر میں نہیں لے جا سکتے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہماری زندگی میں ہی اس میں اور ہم میں جدائی ڈال دی جائے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس کو اپنی نجات کا ذریعہ بنانے کے لئے مصیبت میں گھرے ہوئے بہن بھائیوں کی مدد کرنے میں صرف کریں نہ کہ صرف بیانات کی حد تک ان سے ہمدردی کا اظہار کریں۔

آئیں اور مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی دل کھول کر مدد کریں تاکہ خدانخواستہ اگر کل کو ہم پر ایسا وقت آئے تو کوئی ہماری مدد کرنے والا بھی ہو کیونکہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ اگر آپ آج کسی کے کام آئینگے تو کل کو آپ کے بھی کوئی کام آئے گا۔

آئیں اور اس وقت صرف اسٹیٹس یا فیس بک پر تصویریں اپلوڈ کرنے کی بجائے دل کھول کر اپنے بھائیوں کی مالی مدد کریں۔ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق اس کار خیر میں حصہ ڈالے۔ خدا ہم سب پر رحم فرمائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .