۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
عقل انسان

حوزہ / مولانا سید علی بنیامین نقوی نے انسانی عقل و دماغ کے امور کے بارے میں ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

تحریر: مولانا سید علی بنیامین نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی | یہ جو عموما کہا جاتا ہے کہ انسان کے دماغ کی میموری 2.5 بلین گیگا بائٹ ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ ہر انسان اپنی پوری زندگی میں تین یا چار یا اس سے کم فیصدی دماغ کا استعمال کرتا ہے۔ ایک صحت مند انسان اپنی زندگی میں تقریبا تمام دماغی سیلز کو زیر استعمال لاتا ہے۔ ہاں کچھ کیسز اس سے جدا ہوتے ہیں جو اپنے دماغ کا سوفیصدی حصہ استعمال کرنے سے قاصر یا معزور ہوتے ہیں جیسے ذہنی دباؤ ذہنی کھچاؤ ،انزائٹی کے مریض، مرگی کے مریض، پیدائشی دماغی کمزور افراد، برین ٹیومر یا کسی دماغی بیماری کا شکار افراد، مجنون جن کے دماغ کا ایک بڑا حصہ ناکارہ ہوتا ہے۔

دماغ کا استعمال سوفیصد ہی ہوتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر دوسرا شخص پیرالائز ہوتا۔ ہاں رہی بات عقل کی تو دماغ انسانی جسم کا ایسا اہم جزو ہے کہ اگر وہ ناکارہ ہو جائے تو جسم مفلوج ہو جاتا ہے اور انسان ایک گوشت پوست کے لوتھڑے کے سوا کچھ نہیں رہتا بلکہ چلتی پھرتی لاش یا پھر چارپائی پر پڑا گونگا بہرہ اپاہج ایک گوشت اور ہڈیوں کا ڈھیرہی رہ جاتا ہے۔

جسم کو حرکت میں لانے اور اس سے کام لینے کیلئے دماغ کا سوفیصدی استعمال ضروری ہے۔ اب آئیے عقل کی جانب یہ عقل کیا ہے؟ کیا عقل کو چھوا جاسکتا ہے یا حس کیا جاسکتا ہے؟ کیا انسانی حواس خمسہ اسے حس کرسکتے ہیں؟۔ تو جواب یہ ہوگا کہ نہیں؛ عقل کو حواس خمسہ ظاھری کے ذریعے چھوا نہیں جاسکتا۔

ہاں عقل دماغ سے بالا اور ایک غیر مرئی و نادیدہ اور اللہ تعالی کی تفویض کردہ ایسی نعمت عظمی ہے کہ اللہ اللہ کہ یہ وہی عقل ہی تو ہے جس کے مکمل استعمال سے انسان مقام محمود تک پہنچتا ہے، معرفتِ الٰہی اور قوانین شریعت کو اپنے نفس پر نافذ کرتا ہے۔ یہ عقل ایسی نعمت ہے جسے گیگا بائٹس میں ناپا تولا نہیں جاسکتا۔ جسے بروئے کار لاتے ہوئے انسانیت کے اس درجے اور مقام کو حاصل کیا جاتا ہے جہاں پہنچ کر انسان، انسان بنتا ہے بلکہ انسان کامل بنتا ہے۔

صاحبان عقل اللہ کے مخاطب ہیں، صاحبان عقل زمین میں رہ کر للّاہی ہوتے ہیں۔ آسان کردوں دماغ انسان کے جسم کی صحت کا ضامن، انسانی جسم کی بقاء کا ضامن اور عقل انسانی کی بقاء کی ضامن اور معراج روحانی و معنوی ہے۔ اللہ نے قرآن مجید میں عقل والوں کو مخاطب کیا "لعلکم تعقلون" شاید تم عقل سے کام لو "اِنَّ فِىْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِى الْاَلْبَابِ"۔ یہ ہوش مند لوگ کون ہیں؟ وہی تو ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ اولی الباب یعنی ہوش مند، صاحبان عقل۔ یعنی ثابت ہوا جو عقل کا استعمال نہ کرے وہ اللہ کا مخاطب نہیں ہرگز نہیں۔

عقل راشد بناتی ہے، عقل راہ دکھاتی ہے، دماغ بصارت اور عقل بصیرت دیتی ہے تو وہ بہت کم لوگ ہی عقل کا استعمال کرتے ہیں جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے "عقل والوں کیلئے نشانیاں ہیں"۔ دماغ کے استعمال سے جسم تندرست رہتا ہے۔ انسانی دماغ ہی جسم میں سگنلز بھیجتا ہے اور عقل کے استعمال سے انسان نجات دنیوی و اخروی کا سامان مہیا کرتا ہے لہذا صحت مند دماغ کے مالک افراد عقل کو زیر استعمال لائیں ورنہ باز پرس عقل کے مطابق اور عقلی سطح پر ہوگی اور عقل کے استعمال نہ کرنے پر بھی باز پرس ہوگی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .