۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
منشی عنایت خان

حوزہ, بہار کے ضلع گیا میں 'سرسید' کے نام سے معروف منشی عنایت خان مرحوم جنہوں نے آزادی سے قبل مسلمانوں کے پسماندہ علاقے میں تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی، جہاں سے ہزاروں افراد نے تعلیم حاصل کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،گیا/ ریاست بہار کے ضلع گیا کے چیرکی میں 105 برس قبل منشی عنایت خان نے علم کی شمع روشن کی اور ذاتی رقم پچاس پیسے سے ایک ادارہ 'یتیم خانہ اسلامیہ' کو قائم کیا، جس وقت منشی عنایت خان نے یتیم خانہ کو قائم کیا۔ اس وقت چیرکی اور شیرگھاٹی کا علاقہ پسماندہ اور ناخواندگی والا علاقہ تھا، مگر آج یہ علاقہ دینی اور عصری تعلیم کی خوشبووں سے معطر ہے۔ یہاں ناخواندگی کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے تاہم اس عظیم علم دوست شخصیت ''منشی عنایت خان مرحوم " جو بہار کے سرسید کے نام سے معروف ہیں' قوم نے انکی علمی و سماجی خدمات کو فراموش کر دیاہے۔ ضلع گیا اور اطراف میں ملک کی مختلف شخصیات اور سرکردہ سیاسی سماجی ومذہبی رہنماوں کی خدمات کے اعتراف میں گفتگو مختلف مواقع اور پلیٹ فارم پر ہوتی رہتی ہیں لیکن گیا ضلع کی اس عظیم شخصیت کو شاذ و نادر ہی یاد کیا گیا۔ اس کی وجہ سے اس عظیم شخصیت کی خدمات سے نئی نسل ناواقف ہے، جب کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ منشی عنایت خان مرحوم کا قائم کردہ ادارہ 'یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی' کو دیکھنے اور یہاں علمی خدمات کے اعتراف کے لیے ملک کے صدر جمہوریہ ہند، وزیراعلی اور کئی وزرا سمیت معزز شخصیات پہنچتی تھیں۔

منشی عنایت خان کی بے پناہ قربانیوں محنت ولگن کا ثمرہ ہے کہ انکے ذریعے قائم کردہ ادارہ سے ہزاروں طالبعلموں نے فراغت کے بعد ملک اور ریاست کے سرکاری وغیرسرکاری اداروں میں بڑے عہدے پرفائز ہوئے۔ منشی عنایت خان کے ساتھ پچیس تیس برس کا عرصہ گزارنے والے یتیم خانہ کے موجودہ ایڈمنسٹیٹر عبدالحمید نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ عنایت خان صاحب کا مقصد حیات تعلیم وتہذیب اور اخلاقی اقدار سے قوم کے نونہالوں کو آراستہ وپیراستہ کرنا ، ان میں تعلیمی بیداری اور دلچسپی پیدا کرنا تھا۔

عبدالحمید جو خود یتیم خانہ میں سنہ 1952میں طالب علم رہے اور فراغت کے بعد منشی عنایت خان کی سفارش پریتیم خانہ مڈل اسکول میں بطور ٹیچر بحال ہوئے تھے ،انہیں یہاں موجودہ منتظمہ نے سبکدوشی کے بعد ایڈمنسٹیٹر بحال کردیا ، عبدالحمید کہتے ہیں کہ منثی عنایت خان مرحوم کی قربت نے ہمیں یہ ضرور بتایاکہ وہ فروغ تعلیم کے تئیں کس قدر حساس تھے ، وہ علوم کے فروغ کے ذریعے ضلع اور اطراف کے لوگوں کو اعلی تہذیب و تمدن سے مزین کرنا چاہتے تھے ان کا تصور تعلیم یہ تھا کہ مسلمان تمام علوم میں مہارت حاصل کریں اور اسی نظریے سے نہ صرف انہوں نے مدرسہ کا قیام کیا بلکہ نامساعد حالات کے باوجود اسکول بھی قائم کیا جہاں آزادی کے بعد 1950تک اسکول میں غیرمسلموں کے بچے بھی زیرتعلیم رہے ، آج یہاں بہار اسکول بورڈ سے ملحق ہائی اسکول کے ساتھ آئی ٹی آئی کی تعلیم ہوتی ہے ساتھ ہی دیگرکورسز کرائے جاتے ہیں لیکن مایوسی اس بات کی ہے کہ قوم نے انکی خدمات کا وہ اعتراف نہیں کیا جسکے وہ مستحق تھے ایک محاورہ کہ ' چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے ' اسی چراغ کے مترادف عنایت خان کی شخصیت ہے۔

زمینداروں نے کی تھی مخالفت

منشی عنایت خان کو ابتدا میں علاقے کے زمینداروں کی ناراضگی اور اختلافات کا سامنا کرنا پڑا ، کیونکہ علاقے زمینداروں کا کہنا تھا کہ وہ یہاں یتیم خانہ کو قائم نہیں کریں، منشی عنایت کو روکنے کی کوشش کی گئی، حوالہ دیا گیا کہ سب پڑھ لکھ لیں گے تو انکے کام کاج کو کون دیکھے گا؟ لیکن منشی عنایت کا صرف اور صرف ایک ہی عزم تھاکہ وہ ادارہ قائم کریں جہاں غریب مسکین یتیم بے سہارا اور سماج کے ہر طبقے کے بچوں کو پڑھایا جاسکے ، زمینداروں کی مخالفت اور ناراضگی ہی ایک ایسی وجہ تھی کہ عنایت خان کو ضلع سے باہر وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جسکے وہ مستحق تھے۔

ایسے ادارہ قائم کرنے کا ہوا ارادہ

یتیم خانہ گیا گنگا جمنی تہذیب کا مرکز ہے ۔ چیرکی کے رہنے والے عنایت احمد خان کولکاتا میں فائربریگیڈ میں ملازمت میں تھے. جب وہ گھر آتے تو گاؤں میں یتیم بچوں اور اقتصادی طور پر کمزور بچوں کو دیکھ کر انہیں تکلیف ہوتی۔ اس تعلق سے عنایت خان کے پوتے سہیل احمد خان کے مطابق ایک بار وہ چھٹی میں گاوں آئے اور جب جانے لگے تو گاؤں کے دو یتیم بچوں کو اپنے ساتھ کلکتہ لے گئے، وہاں انہوں نے دونوں بچوں کو ایک یتیم خانہ میں رکھوانا چاہا تو یتیم خانہ انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے رکھنے سے منع کردیا کہ یتم خانہ میں اور بچوں کو رکھنے کی جگہ نہیں ہے، اس دوران کسی نے یہ بھی کہا کہ اگر اتنی ہی فکر ہے تو خود کیوں نہیں یتیم خانہ کھول لیتے، اسی بات سے ان کو تکلیف ہوئی اور وہ ان بچوں کو لے کر واپس گاؤں آگئے اور اسی ارادے کے ساتھ واپس آئے کہ وہ اپنے گاؤں میں علم کی شمع روشن کریں گے اور انہوں نے کرایہ کے مکان میں دو کمروں سے یتیم خانہ کا آغاز کیا، یوں تو منشی عنایت خان کے پاس کسی اسکول کالج یامدرسے کی ڈگری نہیں تھی لیکن وہ بے باکی سے علمی گفتگو کرتے تھے علم کی ایسی چاہت تھی کہ کلکتہ میں وہ اسٹریٹ لائٹ میں بیٹھ کررات میں پڑھتے اور دن میں کام میں مصروف رہتے۔

واضح ہوکہ گیا کا مسلم یتیم خانہ۔ یتیم اور نادار بچوں کی بہتری کے خواب کے ساتھ اکتوبر 1917 میں عنایت احمد خان نے 50 پیسے سے قائم کیا تھا جو آج بے حد مستعدی اور مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے، گزرے سو سالوں میں ہزاروں یتیم بچوں کی زندگی اس یتیم خانے سے نہ صرف سنواری گئی، بلکہ پورے علاقے میں علم کی شمع بھی روشن کی گئی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .