۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا سید علی عباس رضوی

حوزہ/ حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای بہار کی جانب سے یاد معصومہ قم (س) اور ایران کے شیراز شہر روضے میں شہید ہونے والے کے سلسلے سے مجلس عزا کا انعقاد کیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سیوان بہار/ حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای کی جانب سے یاد معصومہ قم (س) اور ایران کے شیراز شہر روضے میں شہید ہونے والے کے سلسلے سے مجلس عزا کا انعقاد کیا گیا۔جسمیں سوز خوانی،تقاریر،پیشخوانی،اور خطابت کا پروگرام منعقد ہوا۔ سوزخوانی کے فرایض جناب سید غلام نجف اور انکے ہمنوا سید انتظار حسین رضوی نے انجام دیا۔

الٰہ آباد سے مجلس عزا کو خطاب کرنے والے حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید علی عباس رضوی نے کہا کہ امام رضا علیہ السلام کا سب سے نزدیک اور قابل اعتماد صحابی صفوان بن یحییٰ کہتے ہیں کہ ایک دن ہملوگ امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھےتھے کہ شہر قم اور وہاں کے باشندوں کے بارے میں گفتگو ہونے لگی اور اس سلسلے میں گفتگو ہونے لگی کہ وہاں کے باشندے امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت انکے ساتھ ہونگے،اسی اثنا میں امام رضا علیہ السلام نے اہل قم پر درود بھیجا اور فرمایا:'' ''خدا ان سے راضی و خوشنود ہو! اس کے بعد فرمایا: ''انّ للجنّة ثمانیة ابواب و واحد منہا لاہل قم؛ وھم خیار شیعتنا من بین سائر البلاد'' بہشت کے آٹھ دروازے ہیں جنمیں سےایک دروازہ قم کے باشندوں سے مخصوص ہے۔اس شہر کے باشندے دوسرے شہروں کی بہ نسبت ہمارے نیک اور منتخب شیعہ ہیں ،خدا نے ہماری ولایت و محبت کی خمیر کو انکی طینت سے ملادیا ہے ۔ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی نورانی بارگاہ کے علاوہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی اولاد اور بہت سارے امام زادے بھی اس مقدس شہر میں آرام فرمارہے ہیں ،عرفاء ،علماء اور مراجع کرام اور عالم اسلام کی برجستہ شخصیتوں نے بھی اس شہر کی عظمت بڑھائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الحمد للہ آج علم و اجتہاد کے اس شہر میں عشاق آل محمد اور پیروان ولایت و امامت بانوئے عفت و پاکیزگی ملکۂ کرامت و بزرگی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے دسترخوان سےبہرہ مند ہورہے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں علماء ، طلاب اور دینی مبلغین تربیت پارہے ہیں اور مکتب امام صادق علیہ السلام کے پروردہ حوزۂ علمیہ قم سے تعلیم و تربیت پاکر ثقافت و معارف اسلامی کو خود ایران اور ایران سے باہر دوسرے ممالک میں منتشر کررہے ہیں، ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ تمام کارکردگیاں اور کوششیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی برکتوں اور کرامتوں کیوجہ سے ہے،وہ بزرگوار خاتون جنکے والد بزرگوار حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام،جنکے بھائی امام رئوف عالم آل محمدؑ حضرت امام علی رضاعلیہ السلام ہیں اور آپکی والدۂ گرامی حضرت نجمہ خاتون ہیں کہ جن کے بارے میں لکھا گیا ہےکہ اپنے زمانےکی ایک برجستہ خاتون تھیں اورعقلمندی،دینداری،حیا اورجمال ظاہری و باطنی کے میدان میں بے نظیر تھیں۔ ۲۰۱ھ میں امام رضا علیہ السلام کے''مرو''کی طرف جلا وطنی کے سفر کے ایک سال بعد حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے کچھ بھائیوں کے ساتھ اپنے بھائی کے دیدار اور امام زمانہ کی تجدید بیعت کے لئے اپنے وطن کو چھوڑا۔

مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ لوگ ''ساویٰ''پہنچے تو کچھ دشمنان اہل بیت نے حکومت کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر ان پر حملہ کردیا ، اس متعصبانہ حملہ میں حضرت معصومہ (س) کے کچھ ہمسفر شہید ہوگئے ،''ساویٰ ''میں ہی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا مریض ہوگئیں اور آپ نے فرمایا: مجھے قم لے چلوکیوں کہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ ''شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے''،یہ سنکر حضرت کو قم کی طرف لے جایا گیا،قم کےلوگ جو اس پر مسرت خبر کو سنکر پھولے نہیں سما رہے تھے حضرت معصومہ (س) کے استقبال کےلئےآئے، موسی بن خزرج نےحضرت کے اونٹ کی مہار تھامی اور لوگوں کے ہمراہ قم لےگئےاورحضرت معصومہ موسی بن خزرج کےگھر قیام کیا جواس وقت''میدان میر''نامی محلہ میں ہے (تاریخ قدیم قم، ص٢١٣)

حضرت معصومہ سستّرہ دنوں تک اس شہر ولایت و امامت میں زندہ رہیں اور اپنی زندگی کے آخری ایام کو عبادت،مناجات اور خدا سے راز و نیاز میں بسر کردیا اور اسی شہر میں دنیا سےرخصت ہوگئیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .