۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مدرسہ الامام المنتظر قم میں سالانہ علمی سیمینار کا انعقاد

حوزه/ جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے نائب سربراہ نے جامعۃ المنتظر قم کے تحت منعقدہ علمی سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر غیبت کے زمانے میں دین اسلام کی تبلیغ اور عالم تشیع کے امور کو سنبھالنے والے یہ علماء نہ ہوتے تو دین خدا پر کوئی بھی باقی نہ رہتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے نائب سربراہ حجۃ الاسلام خالق پور نے جامعۃ المنتظر قم کے تحت منعقدہ علمی سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر غیبت کے زمانے میں دین اسلام کی تبلیغ اور عالم تشیع کے امور پر کو سنبھالنے والے یہ علماء نہ ہوتے تو دین خدا پر کوئی بھی باقی نہ رہتا۔

انہوں نے شہید اول کی اہم خصوصیات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس قدر اہل تحقیق و مطالعہ تھے کہ مختلف ملکوں میں ایک برجستہ شخصیت کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے خود فخر المحققین ان کے اساتید میں سے تھے لیکن یہ ان کے لئے بھی قابل فخر تھے انہوں نے لمعہ جیسی کتاب لکھی کہ جس کی شرح شہید ثانی نے لکھی اس قدر اخلاص رکھتے تھے کہ علماء وضو کے بغیر اس کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے اور یہ بات مشہور ہے کہ جب بھی کوئی اس کتاب کو شروع کرتا تھا تو گویا وہ اپنے آپ کو پاکیزہ اور طہارت کی فضا میں پاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہید اول نے اپنی عمر کو مخلصانہ طور پر گزارا اور ایک لائن بھی اپنی تعریف کروانے کے لئے نہ لکھی، لہٰذا ان کے اس پہلو پر ہمیں بھی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے نہ یہ کہ ان کے آثار کو شمار کیا جائے بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کی تحقیقی شخصیت پرکام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ راز ہمیں بھی معلوم ہو کہ شہید نے اس عمر میں اس قدر چیزوں کو تالیف و تصنیف کیسے کیا۔

حجت الاسلام خالق پور نے شہید اؤل کی دوسری خصوصیت کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ شہید تفکر تقریبی رکھتے تھے خود عالم تھے اور اس زمانہ میں تقیہ بھی تھا لیکن شہید کی بناء فقط تقیہ پر نہ تھی بلکہ وہ قائل تھے کہ دین کی بنیاد اور اصل دین محفوظ رہے اور اس کی حفاظت کی جائے دین فراموش نہ ہوجائے آئمہ علیہم السلام نے بھی اسی ہدف کی خاطر اپنی زندگیوں کو قربان کیا اور اپنی زندگیوں کو آرام وسکون سے محروم کردیا جیسا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا جو اپنے والد بزرگوار کا کامل نمونہ تھیں کربلا سے پہلے ان کی ایک برجستہ شخصیت تھی لیکن کربلا کے بعد ان کی شخصیت مجروح ہوئی اور لوگوں کے نزدیک اب ان کا وہ مقام نہ رہا اور یہ انہوں نے خود انتخاب کیا تاکہ حسین علیہ السلام کا نام زندہ رہے علماء نے بھی اس قدر زحمات اٹھائیں ہیں کہ خود فراموش ہوجائیں لیکن اصل دین باقی رہے۔

جامعۃ المصطفیٰ کے نائب سربراہ نے کہا کہ امام کاظم علیہ السلام کے صحابی علی بن یقطین حکومت میں اثر ورسوخ رکھتے تھے اور آپ لوگ نہیں پہنچاتے تھے کہ وہ شیعہ ہیں کیونکہ ظاہراً تقیہ تھا لیکن امام علیہ السلام چاہتے تھے کہ ان کے ذریعے سے دین اسلام کے علوم پہنچیں۔ آج جو ہمارے پاس اسلام ناب موجود ہے وہ سب ان علماء کی زحمات کا نتیجہ ہے اس کا نمونہ پاکستان میں افتخار حسین نقوی ہیں کہ جنہوں نے حکومتی سطح پر پاکستانی شیعہ کے حق میں آواز اٹھائی اور کتابیں بھی لکھیں۔ شہید اول کے اسی وجہ سے زیادہ شاگرد تھے کہ جس میں زیادہ سنی تھے اور شہید اول دیگر مکاتب کی تعلیم کے ضمن میں حقیقی اسلام کو پیش کرتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تیسری خصوصیت شہید اؤل کی یہ تھی کہ عالم بالزمان تھے خود شام میں موجود تھے اور خراسان سے کسی نے لکھا کہ ہم نے شیعہ حکومت تشکیل دی ہے تو ہمارے لئے ایک دورہ احکامات کو بھیج دیا جائے تو شہید اول نے کتاب لمعہ کو لکھا اور فرماتے ہیں کہ یہ معجزہ تھا کہ کتاب لکھنے کے دوران کوئی بھی اہل سنت میرے پاس نہیں آیا۔

انہوں نے کہا ہے آج کے طلباء میں بھی شہید اؤل کی یہ تین خصوصیات ہونی چاہئیں مرحوم مہدی نجفی بھی انہی خصوصیات کے حامل تھے۔ اہل عمل تھے۔ انسان کو اپنے مفادات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیئے بلکہ معاشرہ کو عروج دینے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ ہماری فکر یہ ہوتی ہے کہ کیا کریں کہ زندگی چل پڑے مگر ان لوگوں نے زندگی کو فدا کردیا ان علماء کی زندگی میں برکت تھی اسی وجہ سے یہاں ان کا تذکرہ ہورہا ہے آج ان کے کام کو دیکھ کر ان کی تجلیل کی جارہی ہے آج آپ سب ان دو بزرگوار کے مثل ہیں بلکہ ان سے بھی بالاتر ہیں کیونکہ آج فرصت اور امکانات زیادہ ہیں۔ آج مکتب اہل بیت علیہم السلام کی وجہ سے دشمن کے پاؤں لڑکھڑا گئے ہیں۔

آخر میں جامعۃ المصطفیٰ کے نائب سربراہ نے کہا کہ جامعۃ المصطفیٰ نے اپنی کمیوں کے باوجود تقریباً دنیا کے بیشتر ممالک سے طلباء کو اکھٹا کیا ہے جو عاشقانہ طور پر دینی تعلیمات سے مستفید ہورہے ہیں.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .