۲۰ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 9, 2024
مولانا صادق

حوزہ/ اسلام میں بات صرف انسانی حقوق کی نہیں، اس سے کئی گنا بڑھ کر، جانور کے کرامت اور احترام کی باتیں ہیں۔

تحریر: مولانا محمد صادق حسن مھدوی

حوزہ نیوز ایجنسی | ہر سال جس طرح کچھ seasonal شبهات اور اشکالات کا هجوم ہوتا ہے، اس سال بھی عید الاضحی کے موقع پر مختلف NGO's اور انسانیت کے دعویدار اسپیکرز نے قربانی کے جانوروں کے ذبح پر اشکالات اور شبهات کھڑے کئے اور اسے روکنے کی اپنی مذبوحانہ کوششیں کی۔
کبھی vegetarian NGO's نے اپنی پسند کو دین الهی کے مقابل کھڑا کردیا تو کبھی کثیر تعداد میں جانوروں کے ذبح کو انسانیت کی شقاوت کی نشانی قرار دی۔ کبھی عید الاضحی پر یاد آیا کہ مسلمانوں کو گوشت کے نقصانات بتائے جائے اور اس میں موجود، دو تین دن پهلے دریافت شده کینسر کی طرف توجہ دلائی جائے۔ البتہ یہ ساری چیزیں صرف مسلمانوں سے مخصوص ہیں کیونکہ مغرب میں موجود جانور، مسلمانوں کے جانوروں سے الگ ہوا کرتے ہیں اور ان کو کهانے میں کوئی برائی نہیں۔
اسی خاطر پورے سال 90 ارب جانور کھانوں میں استعمال ہوا کرتے ہیں۔ خود KFC صرف ایک سال میں 750 ملین سے زائد جانوروں کو ذبح کرتا ہے۔ McDonald هر سال 25 ملین گائی کاٹتا ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر صرف امریکن تین برینڈ KFC, McDonald, Burger King کئی ملین جانور کاٹتے ہیں جو صرف اور صرف ان کے ہی ملک میں استعمال ہوا کرتے ہیں۔
اس کے برعکس اسلام میں عید الاضحی پر تقریبا 12 لاکھ جانور ذبح ہوتے ہیں اور اوسطا 150 ملین دولر کا کاروبار ہوتا ہے جس میں زیاده تر مقدار کی کمائی، مزدور طبقہ کی ہوا کرتی ہے جو اپنا پورا سال اور پوری زندگی اس جانور کو پالنے میں لگاتے ہیں، یا اس مزدور کی جو اس جانور کا چارا فراہم کرتا ہے، جس کی وجہ سے اس مزدور طبقہ کی سال کی اچهی خاصی کمائی ہوجایا کرتی ہے۔
اس کے علاوه اس عید کی برکت سے غریب طبقہ جو پورے سال گوشت سے محروم ہوتا ہے، لذیذ کهانوں سے آشنا ہوکر ایک وقت، امیروں کا کهانا کهاتا ہے۔ جب اس کھانے کی خوشبو گھر میں پهیلتی ہے، بچے شاید ایک لمحہ کے لئے خود کو آسمانوں میں محسوس کرتے ہوگے، اور یہ ہے وه خوبصورتی ہے جسے اسلام نے ایجاد کیا ہے اور انسانیت سے محبت کے دعویدار ختم کرنا چاهتے ہیں۔
ان NGO's کو بنے ہوئے 18 یا 20 برس نہیں ہوئے، جبکہ اسلام نے جانوروں کے حقوق کے لئے 1400 سال قبل گفتگو کی ہیں اور ہمارے علماء نے جانوروں کے حقوق پر فتاوا دئے ہیں۔
اسلام کی باتیں اور علماء کے فتاوا اس بارے میں نهایت حیرت انگیز ہیں جسے پڑھ کر ہر مسلمان کو دین اسلام سے منسلک ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے:
اگر حیوان کا مالک اپنے جانور کے غذا اور نگهداشت کا خیال نا رکھے، مثلا کوئی پرنده، یا بلی یا گائی یا بکری وغیره، جب بیمار ہوجاتی، اس کا علاج نہیں کرتا یا سردی گرمی میں اس کی حفاظت نہیں کرتا، حکومت پر اس حیوان کی نگهداشت کی ذمہ داری ہے۔
روایت میں ہے کہ ایک دن پیغمبر اکرم (ص) کسی استبل میں داخل ہوئے اور وہاں کی صورتحال دیکھ کر یہ کها که جانوروں کا استبل اتنا صاف ہونا چائیے کہ تم اس میں نماز پڑھ سکو۔ پھر یہ مشاهده فرمایا کہ بکری کے ناک میں سے گندگی نکل رہی ہے، پیغمبر (ص) نے فرمایا اس کی ناک صاف کرو۔ اس کی ناک کی صفائی ضروری ہے۔ یه حیوان اذیت میں ہے، درست انداز میں سانس نہیں لے سکتا۔
ایک شخص گھوڑے پر بیٹھا تھا غصہ هوکر، گھوڑے کو گالی دیتا ہے اور اسے مارتا ہے۔ پیغمبر (ص) اسے کھتے ہیں تمہیں حق نہیں جانور کو گالی دو اور اسے مارو۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا: لعنت ہے اس شخص پر جو حیوانات کو گالی دیتا اور ان کی اہانت کرتا ہے۔
اسلام میں بات صرف انسانی حقوق کی نہیں، اس سے کئی گنا بڑھ کر، جانور کے کرامت اور احترام کی باتیں ہیں۔
ایک شخص نے جانور کے منہ پر تازیانہ مارا۔ فرمایا تمہیں حق نہیں جانور کے منہ پر تازیانہ مارو۔ وه اپنے اس منہ سے خدا کی عبادت کررہا ہے۔
علماء کے فتاوا جو هزاروں سال سے موجود ہیں، حیوانات کے حقوق کے بارے میں نهایت حیرت انگیز ہیں:
آیت الله محمد حسن نجفی جواهر الکلام میں بیان کرتے ہیں که جب ماده جانور کے دودھ کو نکالنا ہو، ناخن کاٹنا واجب ہے تا کہ یہ ناخن اسے زخمی نا کردے اور اذیت کا باعث نا بنے۔
اس کا سارا کا سارا دودھ نکالنا حرام ہے۔ اس کے بچے کے لئے یہ دودھ باقی رکھنا ضروری ہے۔
اگر جانور کا مالک، جانور کی صحیح انداز میں غذا اور گرمی، سردی، بیماری میں تیمارداری نا کرسکے، یا کرسکے لیکن اس کام سے پرهیز کرے، حکومت اسلامی پر فرض ہے کہ پهلے اسے نصیحت کرے، اگر قبول ناکرے، حکومت کو اسے مجبور کرنا ہوگا کہ جانور کا خیال رکھے۔ اگر اس نے بات نامانی، حکومت جانور کو اس سے لیکر بیچ کر یا اسے ذبح کرکے، گوشت فقرا کے درمیان بانٹ دے۔ یا اگر جانور خود ہی اپنا چارا پانی محیا کرسکتا ہے، اسے آزاد کردے۔ یا دوسروں کے ذمہ لگا دے جو اس کام کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر جانور کو آزاد کرنا، اس جانور پر لڑائی اور اس کی اذیت کا باعث بنتا ہے، جانور کو بیچ کر اس کی مالیت مالک کو ادا کردے اگر مالک کی غلطی ناہو اور وه اس جانور کا خیال نہیں رکھ سکتا ہو۔
یہ سارے فرامین اور احکامات، اسلام نے ہزاروں سال قبل سے دئے ہیں۔
اب انسانیت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ مخلوقات خدا کے حقوق کا دعوا کون کرتا ہے اور کون ان سے سچی محبت کرتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .