حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علی گڑھ/ گزشتہ شب مجلسٍ بیادگار شہدائے کربلا خانۂ ڈاکٹر شجاعت حسین، فرینڈز کالونی، علی گڑھ پر منعقد ہوئی۔ مجلس کو خطاب حجت الاسلام مولانا سید شباب حیدر صاحب قبلہ نے کیا۔ مجلس کا آغاز ڈاکٹر مہتاب احمد صاحب کی پیش خوانی سے ہوا۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز، بہترین آواز اور نایاب لب و لہجہ میں درج ذیل اشعار سامعین کے ذہن عالیہ کے حوالے کیا:
باطل کے حوصلوں کو گرانے کے واسطے
عباس نے فرات میں طوفان اُٹھا دیا
قربان ہوتا دیکھ کے بابا کی جان پر
اصغر کو ایک تیر نے کُھل کر ہنسا دیا
مولانا موصوف نے عزادارانٍ سید الشہداء میں اکثریت موجودگی طلباء کی دیکھی تو انہوں نے اپنی گفتگو کے لیے علم، تربیت اور اخلاق کو منتخب کیا۔ آغاز کلام کرتے ہوئے حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی معروف حدیث بیان کیا "علم کا حاصل کرنا ہر مرد و زن پر واجب ہے۔" حضرت رسول اکرمؐ کا قول ہے کہ علم عمل کا پیش رو (امام) ہے۔ بابٍ مدینتہُ العلم، راس الحلم، شمع دینٍ مبین امیرالمومنین حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ نے فرمایا "علم ہمیشہ عمل کے ساتھ ہے جو شخص اسے جانتا ہے وہ عمل کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ عٍلم عمل کو آواز دیتا ہے۔ اگر عمل اُس کی دعوت قبول نہیں کرتا تو علم اس سے دور ہو جاتا ہے۔" علم کی بنیاد تدقیق ہے۔ قالَ امام جعفر صادقؑ "علم کو عمل کی راہ سے تلاش کرو۔"
حاضرین طلباء و نوجوانوں کو متوجہ و زور دیتے ہوئے کہا کہ احکامٍ قرآن، ارشادات پیغمبرؐ اسلام اور اقوالٍ آئمہ معصومین علیہم السلام پر تسلسل، مستقل مزاجی، دلچسپی و سنجیدگی اور پابندی سے عملٍ پیراں رہیں۔ آپ کامیاب و کامران ہونگے۔ آپ کا مستقبل روشن ہوگا۔ پروردگار اگر کسی کو علم عطا کرتا ہے تو وہ 'خیر کثیر' ہے۔
مولانا صاحب نے اس قول کو بھی پیش کیا جس میں علیؑ فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کی تقسیم پر راضی ہیں کہ اس نے ہمارے لیے علم کا انتخاب کیا اور جاہلوں کے لیے مال و دولت۔ علم کی عظمت اور فضیلت کا مشاہدہ کریں کہ سردارٍ ملائکہ جبرئیل امین حضرت علی علیہ السلام کے سامنے سر خم کرتے اور کھڑے ہوجاتے کیونکہ آپ ان کے معلم قرار پائے۔
علم اور دولت کی وضاحت اور ان میں فرق بتاتے ہوئے کہا کہ علم جتنا تقسیم کیا جاتا ہے اس میں اضافہ ہی گا اور دولت کو جتنا خرچ کیا جائے یہ کم ہوتی جائے گی۔ علم کو تقسیم کرنے سے کمال نصیب ہوگی جبکہ دولت خرچ کرنے سے مفلس اور کنگال ہوگا۔ علم اور تربیت کے ساتھ حُسن اخلاق اہم ہے۔ علم ذخیرہ ہو اور تربیت یافتہ بھی لیکن اچھے اخلاق کا فقدان ہو تو ایسے شخص کو باکمال ہونا ناممکن ہے۔ عزت اور فضیلت کا مالک تبھی ہوگا جب قابل ستائش اخلاق سے مزین ہو۔ لہٰذا کامیابی کے لیے علم اور تربیت کے ساتھ اچھے اخلاق کا ہونا ضروری ہے۔
مولانا سید شباب حیدر صاحب قبلہ نے مصائب سید الشہداء بیان کیا تو عزاداران شہدائے کربلا زار و قطار آنسو بہائے اور ماتم و گریہ کیا۔ بعد مجلس شبیہ علم مبارک حضرت ابوالفضل العباس علمدار با وفا برآمد ہوا۔ جناب حجت مہدی صاحب نے اپنی پُر درد صدا میں علمدار باوفا کے حال کا نوحہ پڑھ کر ماتم داروں کے لیے غمگین ماحول بنایا۔
کثیر تعداد میں سوگوارانٍ کربلا نے مجلس میں شرکت کی جن میں پروفیسر سید علی کاظم، سید ضیاء امام، سید کاظم عابدی، سید مصطفٰی بلگرامی، سید منصف عابدی، سید دانش زیدی، اصغر مہدی ہیں۔