۱۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۸ شوال ۱۴۴۵ | May 7, 2024
News ID: 396722
19 فروری 2024 - 07:00
مولانا محمد رضی مہدوی

حوزہ/ معاشرہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے، تہذیبیں بدل رہی ہیں، انسان میں وہ اضطراب نہیں رہا جو حق و حقیقت کی جستجو کیلئے ضروری ہے، مزاج میں وہ تمکنت نہ رہی جو سکون و قار میں اضافے کی ضمانت ہے اور گھروں میں وہ دائرے ختم ہوگئے جہاں چند لوگوں کے مسکرانے سے پورا محلہ مسکرا دیتا تھا۔

تحریر: محمد رضی مہدوی مقیم کربلاء عراق

حوزہ نیوز ایجنسی | معاشرہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے، تہذیبیں بدل رہی ہیں، انسان میں وہ اضطراب نہیں رہا جو حق و حقیقت کی جستجو کیلئے ضروری ہے، مزاج میں وہ تمکنت نہ رہی جو سکون و قار میں اضافے کی ضمانت ہے اور گھروں میں وہ دائرے ختم ہوگئے جہاں چند لوگوں کے مسکرانے سے پورا محلہ مسکرا دیتا تھا۔ ہر موڑ پر اصلی سامان کی جگہ نقلی اشیاء نے لے رکھی ہے ،انسان بس ظاہری بناوٹ اور خوبصورتی پر توجہ دے رہا ہے ،کسی چیز کی اصلی حالت اسکے لئے اہمیت نہیں رکھتی ،باطل کو حق کی صورت میں بڑی آسانی سے پیش کیا جانے لگا ہے ، ایسا لگتا ہے وہ طبقہ معاشرے سے ختم ہوگیا جو باطل نظریات کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جاتا تھا اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا تھا۔

آج ترقی یافتہ دور ہے اور اسکے مزاج میں بس ایک بات نظر آتی ہے کہ ’مجھے آگے جاناہے؛!!مسئلہ آگے جانے کا نہیں ہے کیونکہ آگے جانے کا ارادہ رکھنا منقصت نہیں بلکہ انسانی محاسن میں ایک ہے ،کمال کی خواہش رکھنا ذہن بشری کی خاصیت ہے ،حصول کمال کیلئے سعی و کوشش کرنا انسان کے زندہ ہونے کی ایک دلیل ہے ،ترقی و ارتقاء کیطرف قدم بڑھانا قرآن و اہلبیت علیھم السلام کی تعلیمات کا حصہ ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے آپکو کتنا آگے جانا ہے؟ اور کسکے آگے جانا ہے؟

دنیوی امور اور دنیوی تعلیمات کے اعتبار سے آگے جانا چاہتے ہیں تو مطلب یہ ہے آپ فکری اعتبار سےصحیح و سالم ہیں اور اگر محبت و مودت اہلبیت علیھم السلام میں دوسروں سے آگے جانا ہےتو اسکا مطلب یہ ہے کہ آپکی فکر قرآنی ہے (والسابقون السابقون اولئک المقربون) اور آپکی فکر یہودو نصاریٰ یا دشمنان اسلام کی سوچ سے کوسوں دور ہے اور اس پر وہ گرد و غبار نہیں جمی ہے جو فکر قرآنی کو تبدیل کردے ۔

البتہ معاشرے کی تصویر الگ نظر آرہی ہے وہ معاشرہ جسے اہلبیت رسول ؑ نے عظیم قربانی دیکر بنایا تھا اسے بگاڑنے کیلئے کچھ افراد میدان میں اترے ہوئے ہیں کوئی علم کے نام پر اہلبیت علیھم السلام کی تعلیمات اور ارکان اسلام کو موردشکوک قرار دے رہا ہے تو کوئی اشعار کی صورت میں انکی تعلیمات اور اصول کو باطل عقیدوں کے ساتھ ملا دے رہا ہے اور ہماری عوام سبحان اللہ واہ واہ واہ واہ کہکر نعرۂ حیدری یا علیؑ بلند کرکے انکی حوصلہ افزائی کر رہی ہے یعنی جو آپ کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے اور تو اور اگر کسی عالم دین نے یہ کہہ دیا کہ قبلہ آپکا شعر یا آپکی فکر صحیح نہیں ہے اسے مت پڑھئے تو جواب دیتے ہیں آپکی نگاہ میں غلط ہے میری نگاہ میں صحیح ہے سب آپکی تھوڑی چلے گی کچھ ہماری بھی چلے گی ۔

اہلبیت ؑ کا نام لیکر انکی تعلیمات کو زندہ کرنے والے علماء کی توہین کرنا آج عام سی بات ہوتی جا رہی ہے اگر ہماری عوام نے اس فکر کو روکنے کی ہمت نہیں کی تو آج ؛بشر کی شکل میں پروردگار اتراہے یا آیاہے؛ کل نعوذ باللہ عدل میں ظلم کے پہلو کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے اور باقی اصول کو بھی پامال کیا جا سکتا ہے۔

ان لوگوں وہی سوال ہے کتنا آگے جانا ہے ؟ کسکے آگے جانا ہے؟ کیونکہ نقطۂ اعتدال کا نام ہے علی ابن ابیطالب جو ان سے پیچھے رہ گیا وہ بھی برباد اور جو آگے بڑھ گیا وہ بھی خانہ خراب ، اب بتائیں آپکو کتنا آگے جانا ہے ؟ کسکے آگے جانا ہے؟!!

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .