حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، لبنانی مسلمان علماء نے ایک منعقدہ نشست میں کہا: امریکہ غزہ میں جنگ کو طول دینا چاہتا ہے، انہوں نے فلسطینی گروہوں سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں امریکی حکومت کی طرف سے بندرگاہ کی تعمیر کی مخالفت کریں۔
لبنانی علماء کے بیانیہ میں کہا گیا ہے کہ "ہم نے کانگریس اراکین کے سامنے امریکی صدر جوبائیڈن کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کو سنا، جس میں امریکی صدر نے غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے متعلق خطاب کیا اور کہا کہ امریکی فوج بحیرہ روم میں غزہ کے ساحل پر ایک عارضی بندرگاہ کے قیام کے ایمرجنسی مشن پر کام کر رہی ہے۔ جس سے خوراک، ادویات، پانی اور عارضی پناہ گاہوں کو لے جانے والے بڑے بحری جہازوں کو مانیٹر کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے مزید کہا: امریکی صدر کی جانب سے اعلان کردہ اس بظاہر ہمدردی کی وجہ امریکہ بھر میں غزہ کے حق میں ہونے والے احتجاج اور جلوس ہیں۔ امریکی صدر نے غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے افسوسناک قرار دیا اور جنگ کے دوران غزہ میں مارے جانے والے 30ہزار سے زائد فلسطینی جن میں ہزاروں خواتین، بچے اور بے گناہ افراد شامل ہیں اور جن میں سے زیادہ تر تحریک حماس کے رکن ہی نہیں ہیں
اس کا بیان نہ ہی غزہ کے لوگوں کی دوبارہ آباد کاری کو شامل ہے اور نہ ہی ان مظلوم افراد پر روا رکھے جانے والے مظالم سے ان کی شرمندگی ظاہر ہوتی ہے بلکہ یہ غزہ کو تباہ کرنے کے منصوبے کا تسلسل ہے۔
سب سے پہلے غزہ کے سواحل پر بندرگاہ کھولنے کا اعلان، ایسا منصوبہ جو کئی ہفتوں تک جاری رہے گا، یعنی امریکہ غزہ میں جنگ کو طویل عرصے تک جاری رکھنا چاہتا ہے۔ وہ حتی عارضی جنگ بندی کے ذریعہ اسے روکنے کی کوشش تک نہیں کرتا، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امریکہ غزہ کے عوام کے خلاف جرائم اور ان کے قتل عام میں صیہونی دشمن کی حمایت جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
علماء لبنان نے اس بیانیہ میں واضح کیا کہ "ہم لبنانی مسلم علماء تحریک حماس، جہادی اور فلسطینی گروہوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بندرگاہ کو مسترد کردیں جس کے اہداف اس کے برعکس ہیں جن کا اعلان امریکی صدر نے کیا ہے۔