۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
News ID: 398189
16 اپریل 2024 - 18:12
سید فصیح کاظمی

حوزہ/ استعماری طاقتوں نے سعودی عرب میں آل سعود سے،کویت میں آل صباح سے،قطر میں آل ثانی سے،امارات میں آل نہیان سے اور بحرین میں آل خلیفہ سے یہ معائدہ کیاکہ اگر انہیں حکومت دی جائے تو وہ خطے میں استعماری مفادات کا تحفظ کریں گئے۔

تحریر: سید فصیح کاظمی

حوزہ نیوز ایجنسی | 8 شوال کا زخم ابھی تازہ ہے۔ 1926 سے پہلے جنت البقیع کا منظر کچھ اور ہی تھا۔ عثمانی خلفا نے صحابہ کرام اور بلخصوص پاک نبی کی پاک بیٹی اور نواسوں کی قبور پر مقبرے بنا رکھے تھے۔ آج بھی مسجد نبوی میں بارہ اماموں کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ یہ گنبد اور اہل بیت اطہار کے بارہ اماموں کے نام ترکوں کی اہل بیتؑ سے محبت کا واضح ثبوت ہیں۔

بعد ازاں جو ہوا ، اُس کے بارے میں محترم نذر حافی لکھتے ہیں کہ "۱۷۵۰ عیسوی میں ایک بادیہ نشین قبیلے کے سردار محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب نے ایک نئی حکومت بنانے پر اتفاق کیا۔ محمد بن سعود کے پاس قبیلے کے افراد اور خون تھا جبکہ محمد ابن عبدالوہاب کے پاس امام ابن تیمیہ کے عقائد و افکار تھے۔ اس کے بعد دونوں کے ملاپ سے ایک نئی حکومت کی تحریک نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔

پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب برطانیہ و فرانس کو تیل کی طاقت کا ندازہ ہوا تو انہوں نے ۱۹۱۹ میں مشرق وسطی کو دو حصّوں میں تقسیم کیا۔اس تقسیم کے نتیجے میں عراق،اردن اور سعودی عرب سمیت کچھ ممالک برطانیہ کے جبکہ ایران،ترکی اور شمالی افریقہ، فرانس کے حصّے میں آئے۔

استعماری طاقتوں نے سعودی عرب میں آل سعود سے،کویت میں آل صباح سے،قطر میں آل ثانی سے،امارات میں آل نہیان سے اور بحرین میں آل خلیفہ سے یہ معائدہ کیاکہ اگر انہیں حکومت دی جائے تو وہ خطے میں استعماری مفادات کا تحفظ کریں گئے۔

ان معاہدوں کی روشنی میں 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے ان پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔

اس سے پہلے۱۹۳۰ میں امریکہ نے سعودی عرب کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے John Fillby ایک برطانوی جاسوس ” جان فیلبی” کو اپنے ایک کارندے ارنسٹ فیشر کے ذریعے خریدلیا۔

یہ شخص ۱۹۱۷ میں برطانیہ کی وزارت خارجہ میں ملازم ہواتھا اور تقریباً ۳۵ سال تک سعودی عرب میں ابن سعود کا مشیر رہاتھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نجد میں قدم رکھنے والا یہ پہلا یورپی باشندہ ہے۔یہ اپنے زمانے کا ایک بہترین لکھاری اور مصنف بھی تھا اور اس کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔

اسے مشرق وسطی کے بارے میں حکومت برطانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف تھا جب یہ اختلاف شدید ہوگیا تو ۱۹۳۰ میں اس نے برطانوی سفارت سے استعفی دے دیا۔اس کے استعفی دیتے ہی اس کی تاک میں بیٹھے امریکی کارندے نے اس گلے لگا لیا۔

اس نے ابتدائی طور پر تیل نکالنے والی ایک امریکی کمپنی میں مشاور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور خاندان سعود سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تیل نکالنے کا ایک بڑا منصوبہ منظور کروایا جس سے برطانیہ کی بالادستی کو دھچکا لگا اور خطّے میں امریکی استعمار کی دھاک بیٹھ گئی۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب دونوں اپنے تعلقات کے سلسلے میں جان فیلبی کی خدمات کے معترف ہیں۔ سعودی عرب کے برطانیہ کے بجائے امریکہ سے تعلقات جان فیلبی کے مرہون منت ہیں۔

یاد رہے کہ سعودی عرب کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے حرمین شریفین بھی کہا جاتا ہے۔ حرمین شریفین کی وجہ سے جہان اسلام کے اصیل اور حقیقی تاریخی آثار بھی سعودی عرب میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ آج سے تقریباً 98 سال قبل یعنی ١٣٤٤ھ/ ١٩٢٦ء میں ۸ شوال کو مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ میں پائے جانے والے مقبروں اور مزارات کو مسمار کر دیا گیا تھا۔"

خلافتِ عثمانیہ کے عہد میں جنت البقیع سارے مسلمانوں کا ایک تاریخی اور مقدس مقام شمار ہوتا تھا۔ رسول اللہؐ جنت البقیع کے قبرستان میں مدفون شخصیات کیلئے خصوصی دعا کیا کرتے تھے۔ جب سعودی عرب میں وہابی، برطانوی اور امریکی اختلاط سے ایک نیا نجدی دین رائج ہوا تو یہاں موجود مزارات مسمار کر دئیے گئے۔ کیونکہ برطانیہ و امریکہ کو مسلمانوں کے مقدس مقامات سے کیا ہمدردی ہو سکتی تھی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .