۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
تصاویر / همایش شب یمن در تجلیل از از مقاومت و رشادت بزرگ مردم مظلوم یمن

حوزہ / ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے بین الاقوامی امور میں معاون خصوصی حسین امیر عبداللہیان نے "شب اشعار یمن" کےعنوان سےایک محفل میں یمنیوں کی شجاعت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: سعودی عرب کے ولی عہد کی جانب سے مجھ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ مخفیانہ طور پر اپنا نمائندہ تہران بھیجیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی امور میں ایرانی اسپیکر کے خصوصی معاون حسین امیر عبداللہیان نے گذشتہ رات تہران میں مدرسہ علمیہ شہید مطہری میں "شبِ یمن"  کے عنوان سے منعقدہ ایک محفل میں تقریر کرتے ہوئے مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے بدلتے ہوئے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران جس طرح یمن کے لوگوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بہت جلد ہم یمن کی فتح کا جشن اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔

انہوں نے واشنگٹن میں سعودی عرب کے سابق سفیر عادل الجبیر کے متعلق ایک یادگار واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یمن پر آل سعود کی جارحیت سے پہلے امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر عادل الجبیر نے سعودی عرب کی یمن کے خلاف جنگ کا اعلان واشنگٹن سے کیا اور یہ حیرت انگیز بات تھی کہ فوجی افسر کے بجائے ایک ملک کا سفیر جنگ شروع کرنے کا اعلان کر رہا تھا۔

ایرانی پارلیمنٹ کے بین الاقوامی امور میں معاون خصوصی نے کہا: چند دنوں کے بعد عادل الجبیر کو سعودی عرب کا وزیر خارجہ بنا دیا گیا اور اسلامی تعاون کونسل کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں میری ان سےملاقات ہوئی۔ میں نے خطے اور یمن کے مسئلہ پر ان سے بات چیت کی۔ ان کا خیال تھا کہ سعودی عرب اس قدر طاقتور ہے کہ یمن سعودی عرب سے چند دن بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اسے امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی پشت پناہی حاصل تھی۔ میں نے ان سے کہا: "یمن کا راہِ حل جنگ نہیں ہے اور آپ کو یمن کی جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا"۔  اس نے ناراض ہو کر غصے سے کہا: "آپ دیکھ لیں گے کہ ہم یمن کے شمال میں حوثیوں کو تین ہفتوں سے کم تر وقت میں نابود کر دیں گے"۔میں نے مسکرا کر ان سے کہا:"وزیر خارجہ صاحب ہم دیکھ لیں گے لیکن آپس اشتباہ کر رہے ہیں"۔

 انہوں نے مزید کہا: سعودی عرب کے حکام کو جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ یمن کے لوگوں کو شکست دینا غیر ممکن ہے۔ وہ ایرانی حکام سے خفیہ ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے مجھ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا گیا۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی طرف سے ایک نمائندہ کے طور پر تہران آئیں۔ ہمارے حکام اور شہید جنرل قاسم سلیمانی نے مجھ سے کہا: "ان کے نمائندے کو تہران آنے دیں"۔ سعودی عرب کے نمائندے نے ہم سے کہا:"ہم اس جنگ کو جاری نہیں رکھ سکتے۔ آپ ہماری مدد کریں تاکہ جنگ بندی ہو جائے"۔ اس مسئلہ پر مفصل گفتگو ہوئی۔ آخر کار سید عبدالملک الحوثی کو جنگ بندی کا پیغام دیا گیا۔ طے پایا کہ سعودی عرب کا ایک جنرل اور انصار اللہ یمن کی مرکزی کونسل کا ایک ممبر مشترکہ طور پر سرحدی علاقے میں آپس میں ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات کا مقصد جنگ بندی کا اعلان تھا کہ سعودی عرب نے اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ تین ہفتوں میں فتح حاصل کرنے کے بجائے ۹ ماہ کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی وساطت سے وہ جنگ بندی پر مجبور ہو جائے گا۔

امیر عبداللہیان نے کہا: باوجود اس کے کہ اس وقت جنگ میں یمنی حاوی تھے لیکن سرحدی علاقے میں مذاکرات ہوئے۔ طے یہ پایا کہ آزمائشی طور پر ایک ہفتے کیلئے جنگ بندی کا اعلان کردیا جائے۔ لیکن جنگ بندی کے بعد امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے سعودی عرب سے کہا: "ہم مدد کرتے ہیں اور اس جنگ پر مزید عملدرآمد نہیں ہونا چاہیے۔ آخر کار ان تین ممالک کے جھوٹے وعدوں کی وجہ سے سعودی عرب نے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔

ایرانی اسپیکر کے بین الاقوامی امور میں معاون خاص نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران یمن کے کسی خاص گروہ کو ترجیح نہیں دیتا اور قائل ہے کہ یمن کا مستقبل یمنیوں سے متعلق ہے۔ یمن کے مستقبل میں ایران، سعودی عرب، برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل کی کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ تعداد اور ملک کے دفاع کے اعتبار سے یمن پر سب سے زیادہ حق تحریک انصار اللہ اور اس کے اتحادیوں کا ہے۔ یمنی بہت فہم و فراست والے لوگ ہیں اور خطے میں قدیم ترین تہذیب و تمدن کے مالک ہیں۔

امیر عبداللہیان نے کہا: خطے میں صہیونی اور امریکی منصوبوں کو ناکام بنانے میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ادھر رہبر انقلاب اسلامی کی رہنمائیاں، شہداء مدافع حرم کی جانفشانی اور رضاکار فورسز کی قربانیاں نہ ہوتیں تو آج خطے کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔

امیر عبداللہیان نے بعض عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ہونے والے معاہدوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اس معاہدے کے ذریعے باہر کے ممالک کو کھلونا بنا رہا ہے۔

ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے بین الاقوامی امور میں خصوصی معاون نے آخر میں کہا: سعودی عرب نے یمن کے پابرہنہ لوگوں کو دیکھ رکھا تھا لیکن وہ بہت جلد متوجہ ہو گیا کہ ان پابرہنہ لوگوں کے عزم و ارادے اس قدر مضبوط ہیں کہ امریکہ، برطانیہ اوراسرائیل سب اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود انہیں شکست نہیں دے سکے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .