۲۹ خرداد ۱۴۰۳ |۱۱ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jun 18, 2024
علامہ ساجد نقوی

حوزہ / قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا: بجٹ میں سب سے بڑے فلاحی تعلیمی نظام کے حامل مدارس مکمل نظر انداز کیوں …؟ گھسی پٹی پالیسی کی بجائے خود انحصار معاشی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے بجٹ 2024-25 پر رد عمل دیتے ہوئے کہا: وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا مگر اس بجٹ میں عوام کہاں ہیں…؟ آئرن، سٹیل پر ٹیکس چھوٹ مگر طلباء کے استعمال کی معمولی چیزوں پر بھی ٹیکس، سب سے بڑے فلاحی تعلیمی نظام مدارس کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا، شعبہ انڈسٹری سے لے کر کسان تک سب پریشان ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ بجٹ تو پیش کر دیا گیا مگر اس بجٹ میں عوام کہاں ہیں…؟ عوام ٹیکسوں کے بوجھ تلے مزید دبتی ہوئی نظر تو آرہی ہے مگر اسے کہیں سے کوئی ریلیف دیاگیا …؟

اشیائے ضروریہ سے بیکری کی معمولی اشیاء تک، قلم دوات سے دوائیوں تک سب پر ٹیکس عائد کر دیا گیا، تعلیمی میدان میں سب سے نمایاں اور فعال کردار ادا کرنے والے دینی تعلیمی نظام کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا، کسی سامراجی ملک میں ایسا ہوتا تو اچنبھے کی بات نہیں تھی مگر اسلامی جمہوری ریاست کا دعویٰ کرنیوالی مملکت میں دینی مدارس کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔

خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تنخواہ دار طبقہ سے 75 اور غیر تنخواہ دار طبقے سے 150ارب ٹیکس وصول کیا جائیگا، ایک طرف 25 فیصد تنخواہ کا اضافہ تو دوسری طرف مختلف ٹیکس سلیبز بھی متعارف کروا دی گئیں۔

جس اشرافیہ پر ٹیکس کی بہت گونج سنائی دے رہی تھی نہ اس پر عملدرآمد نظر آیا نہ ہی کفایت شعاری کی کوئی خاص پالیسی …؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا: ملکی معاشی استحکام کیلئے ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ داخلی سیاسی استحکام ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ملکی انڈسٹریز خصوصاً ٹیکسٹائل، زراعت، سیاحت کے حوالے اقدامات اٹھائے جائیں۔

غیر ہنرمند نوجوانوں کو صحیح معنوں میں ہنر مند بنا کر افرادی قوت بنایا جائے، سماجی شعبے کی خدمات کرنیوالے اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

واضح رہے خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تقریباً مجموعی خسارہ جی ڈی پی کا 12.7فیصد کے قریب ہے، غیر ملکی قرضوں کا حجم 23 ارب ڈالرز کے قریب، حکومتی اخراجات کیساتھ تنخواہوں، پنشن کے بلز اور صوبوں کا سرپلس اس کے علاوہ ہیں۔

اب قرضوں کے ذریعے قرضوں کی ادائیگی کی بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے خود مختار پالیسی اپنا کر آگے بڑھا جائے۔ اسی صورت میں اس بحران کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .