حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامک کلچر اینڈ تھاٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین استاد علی اکبر رشاد نے بین الاقوامی کانفرنس "شہید ہنیہ کا قتل اور مزاحمتی محاذ کا مستقبل" میں ایک خطاب کے دوران کہا :اسلامی معاشرہ نے ابھی تک شہید ہنیہ کی شخصیت کو صحیح طریقے سے نہیں پہچانا، لہذا ضروری ہے کہ شہید اسماعیل ہنیہ کی شخصیت کے پہلوؤں کو بیان کیا جائے۔
اسلامک کلچر اینڈ تھاٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ نے تقویٰ، جہاد، علم اور بصیرت کو ان اقدار و فضائل میں شمار کیا جس نے شہید اسماعیل ہنیہ کو ایسی شخصیت بنا دیا جو آج بھی ذمہ دار اور مصیبت زدہ مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کا محور بن چکی ہے۔
پروفیسر علی اکبر رشاد نے ایک ذمہ دار مسلمانوں کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے کہا: یہ لوگ دوسرے مسلمانوں کے تئیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہیں اور اسلامی غیرت ان کی رگ رگ میں ہے اور وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک دوسرے مسلمانوں کی خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں، وہ اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہین اور مشترکہ عناصر پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، اور مشترکات پر توجہ دینے میں وہ نہ صرف جنبہ ایجابی کو دیکھتے ہیں بلکہ مشترکات کے جنبہ سلبی پر بھی توجہ دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: مسلمان دین کی بنیادی تعلیمات میں زیادہ تر مشترک ہیں اور یہی وہ چیزیں ہے جو ان کو متحد کرتی ہیں، لیکن بعض دوسری چیزیں بھی ہیں جو جنبہ سلبی رکھتی ہیں جیسے مشترکہ دشمن ہونا، لہذا جنبہ سلبی میں مشترکات پر توجہ دینا بھی بہت ضروری ہے۔
پروفیسر علی اکبر رشاد نے کہا: فلسطین اور خطے کا مستقبل بہت روشن ہے، شہید اسماعیل ھنیہ تقویٰ کے عظیم مراتب کے حامل تھے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ میں گزاری اور راہِ خدا میں اپنے جہاد اور تقویٰ کی وجہ سے ہی انہیں عرفان کی بلندیاں نصیب ہوئیں ۔