بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ۚ أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا.سورۃ النساء، آیت ۲۰
ترجمہ: اور اگر تم ایک زوجہ کی جگہ پر دوسری زوجہ کو لانا چاہو اور ایک کو مال کثیر بھی دے چکے ہو تو خبردار اس میں سے کچھ واپس نہ لینا- کیا تم اس مال کو بہتان اور کھلے گناہ کے طور پر لینا چاہتے ہو۔
موضوع:
یہ آیت نکاح اور طلاق کے احکام کے بارے میں ہے، بالخصوص اس میں عورت کے مالی حقوق اور عدل و انصاف پر زور دیا گیا ہے۔
پس منظر:
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب اسلام نے عورتوں کو وہ حقوق دیے جو اس سے پہلے نہیں دیے جاتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا تھا، اور طلاق کی صورت میں ان کا مال واپس لے لیا جاتا تھا۔ اسلام نے اس غیر منصفانہ روایت کو ختم کیا اور عورت کو اس کے حقوق کی ضمانت دی۔
تفسیر:
1. قنطار: قنطار کا لفظ ایک بڑی مقدار کے مال کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ اگر مرد نے عورت کو زیادہ سے زیادہ مال بھی دیا ہو تو طلاق کی صورت میں وہ اس میں سے کچھ واپس نہیں لے سکتا۔
2. عدل و انصاف کی تعلیم: یہ آیت بتاتی ہے کہ اگر مرد اور عورت کے درمیان علیحدگی ہوتی ہے، تو مرد کو انصاف کے ساتھ معاملہ کرنا چاہیے اور کسی بھی قسم کا ظلم یا دھوکہ نہیں کرنا چاہیے۔
3. طلاق کی صورتحال: طلاق دینا کوئی آسان فیصلہ نہیں ہے اور اس آیت میں مرد کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر وہ طلاق دیتا ہے تو عورت کے حقوق کی حفاظت کرے اور جو مال اسے دیا گیا ہے، وہ واپس نہ لے۔
اہم نکات :
1. عورت کے حقوق کا تحفظ: اس آیت میں عورت کے حقوق کی واضح طور پر حفاظت کی گئی ہے، خاص طور پر طلاق کی صورت میں۔
2. انصاف کی اہمیت: اسلام میں عدل و انصاف پر بہت زور دیا گیا ہے اور یہ آیت اسی اصول کی عکاسی کرتی ہے۔
3. اخلاقی اصول: مال کی واپسی کا مطالبہ کرنا بے ایمانی اور ظلم ہے، اور اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نتیجہ
یہ آیت نکاح اور طلاق کے معاملات میں عدل، انصاف اور عورتوں کے حقوق کو واضح کرتی ہے۔ اسلام عورت کو برابر کا درجہ دیتا ہے اور اسے طلاق کے بعد بھی مالی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس آیت کا مقصد نکاح اور طلاق کے نظام کو منصفانہ اور اخلاقی حدود میں رکھنا ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راہنما، سورہ النساء