حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نائب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث اور ممبر اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر عبد الغفور راشد نے کہا ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت اور تحفظ کا جو چارٹر دیا ہے کسی مذہب کے پاس نہیں ہے۔ اسلام سے پہلے عورتوں سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ اگر عورت بیوہ ہو جاتی تو معاشرے میں اسے حقوق سے محروم کر دیا جاتا۔
السراج اسلامک ریسرچ سینٹر میں ہفتہ وار تفسیر قرآن میں سورہ نساء کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خاوند کی اگر زیادہ بیویاں ہوتیں تو لوگ انہیں اپنا مال سمجھ کر ان کے وارث بن جاتے اور یہ کہتے کہ یہ عورت میری ہے، اس پر کپڑا ڈال دیتے یا نشان لگا دیتے تو کوئی دوسرا اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا تھا ۔حتیٰ کہ بیٹا بھی اپنے باپ کی بیوگان کو نکاح میں لے لیتا تھا ۔عورت کے مال پر قبضہ کر لیا جاتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام نے عورت کو عزت اور تحفظ دیا ہے۔ اسلام نے عورتوں کے حقوق غصب کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ عورت بیوہ ہونے کی صورت میں جہاں چاہے اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص عورت سے نکاح کرتا ہے تو اسے چھوڑنے کی صورت میں حق مہر واپس نہیں لے سکتا ۔اسی طرح خاوند جہیز کا مالک نہیں۔ البتہ اس کے جسم اور اس کی خدمات کا وہ مالک ہے۔ اگر عورت کو چھوڑنا چاہے تو اس کو اچھے سلوک کے ساتھ چھوڑ دے۔رسول کریم نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا: اے لوگوں! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل و عیال اور بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ عورتوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ وفا کریں۔ اس کے بستر پر کسی اور کو نہ آنے دیں۔
ڈاکٹر عبدالغفور راشد نے کہا کہ اسلام نے جو تحفظ اور عزت عورت کو دی ہے، وہ کسی اور مذہب میں نہیں ہے مگر بدقسمتی سے یہ چیزیں معاشرے میں بیان نہیں کی جاتیں، جبکہ لوگ بھی اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جس کی وجہ سے خاندانوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔