بدھ 15 جنوری 2025 - 14:56
علی علیہ السّلام ہر دور کی ضرورت

حوزہ/علی علیہ السّلام فرماتے ہیں: "تم حق کو شخص سے پرکھتے ہو یا شخص کو حق سے؟ حقیقت کو شخصیتوں سے پہچانتے ہو یا شخصیتوں کو حقیقت سے؟" حق کا اپنا ایک معیار ہوتا ہے جو شخصیات یا پارسا لوگوں پر منحصر نہیں ہوتا، بلکہ اس معیار پر جا کر حقیقت کو جانچنا چاہیے اور پھر شخصیتوں کو اس کے مطابق پرکھنا چاہیے۔

تحریر: ڈاکٹر علی شریعتی

ترجمہ و تلخیص: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | علی علیہ السّلام فرماتے ہیں: "تم حق کو شخص سے پرکھتے ہو یا شخص کو حق سے؟ حقیقت کو شخصیتوں سے پہچانتے ہو یا شخصیتوں کو حقیقت سے؟" حق کا اپنا ایک معیار ہوتا ہے جو شخصیات یا پارسا لوگوں پر منحصر نہیں ہوتا، بلکہ اس معیار پر جا کر حقیقت کو جانچنا چاہیے اور پھر شخصیتوں کو اس کے مطابق پرکھنا چاہیے۔

طه حسین کہتے ہیں کہ جب سے انسان نے بولنا سیکھا ہے، اس جیسی عظیم الشان بات وجود میں نہیں آئی۔

مندرجہ بالا سطور ڈاکٹر علی شریعتی کی تقاریر سے ماخوذ ہیں جن کا عنوان ہے "علی علیہ السلام کی کیا ضرورت ہے؟"۔ یہ تقاریر وخطبات حضرت علی (ع) کی شخصیت اور طرزِ زندگی کو سمجھنے اور پہچاننے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہیں۔

ڈاکٹر علی شریعتی نے اپنی کتاب "علی اور امامت" میں ہمارے کردار اور امام علی علیہ السلام کے کردار کی ایک تشریح پیش کی ہے وہ کہتے ہیں:

"میں اپنی بات کا آغاز ایک سوال سے کرتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ 'علی کی کیا ضرورت ہے؟ آج علی علیہ السلام کو جاننے کی کیا ضرورت ہے؟'

میں فرض کرتا ہوں کہ ہماری نوجوان نسل، ہمارے روشن خیال اور اس دور و زمانے کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ علی علیہ السلام کی ضرورت آج کیا ہے؟ میں اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں؛ جواب نہ صرف ان لوگوں کو جو تشیع کی رو سے علی پر ایمان رکھتے ہیں، بلکہ ہر اُس شخص کو، چاہے وہ شیعہ ہو یا غیر شیعہ، مسلمان ہو یا غیر مسلم، مومن ہو یا غیر مومن۔ صرف ایک شرط پر، اور وہ یہ کہ سوال کرنے والا وہ انسان ہو جو آج انسانیت، انصاف اور آزادی کے لیے خود کو ذمہ دار محسوس کرتا ہے اور ان اصولوں پر یقین رکھتا ہے جو تمام روشن خیالوں اور دنیا کے آزاد انسانوں میں مشترک ہیں۔ آزاد انسان، چاہے وہ دین دار ہوں یا غیر دین دار، جیسے حسین ع نے اپنے دشمن سے کہا تھا: 'اگر تمہارا دین نہیں ہے تو کم از کم آزاد تو بنو'۔"

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تم کسی مخصوص مذہب پر بھی یقین نہ رکھتے ہو، تب بھی علی ع کو پہچاننے کی ضرورت ہے، کیونکہ آج کا انسان، خاص طور پر اسلامی معاشروں میں ایک ذمہ دار روشن خیال، علی ع کو پہچاننے کی اس سے زیادہ ضرورت محسوس کرتا ہے آج اس کی ضرورت اتنی ہی ہے جتنی کسی اور دور میں تھی۔ اس کے برعکس جو روشن خیال سوچتا ہے کہ "علی ایک عظیم تاریخی شخصیت ہے، ایسی شخصیت جو ماضی کا حصہ ہے، اور آج کے انسان کی ضرورتیں، احساسات، اور مقاصد بدل چکے ہیں، اس لیے اس شخصیت کو دوبارہ زندہ کرنا ایک بے فائدہ بات ہے"، تو ایسے فرد سےمیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج انسانیت، خاص طور پر اسلامی معاشروں میں رہنے والے روشن خیالوں کو، علی علیہ السلام جیسے انسان کو پہچاننے کی کبھی بھی اس قدر ضرورت نہیں رہی جتنی آج ہے۔

علی کی محبت اور عشق یہ وہ سرمایہ ہے جوانسانیت کو اس وقت بچانے کا سبب بنتا ہےجب وہ علی علیہ السلام کو پہچانے۔

میں بارہا کہہ چکا ہوں اور دوبارہ کہتا ہوں کہ آج کا انسان علی علیہ السلام کی محبت اور عشق سے زیادہ علی علیہ السلام کی "شناخت" کا محتاج ہے، کیونکہ "عشق اور محبت" بغیر "شناخت" محض دل بہلانے، بے سدھ کرنے، اور معطل کرنے کا ذریعہ ہے۔

جو لوگ علی علیہ السلام کی محبت اور عشق کے نام پر، مولیٰ کو سمجھے بغیر اور ان کی باتوں، راستوں، اور مقاصد کی صحیح اور درست سمجھ کے بغیر، لوگوں کو معطل اور گمراہ کرتے ہیں، وہ نہ صرف انسانیت، آزادی، اور انصاف کو تباہ کرتے ہیں بلکہ علی علیہ السلام کی عزت دار شخصیت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کی شناخت کو بے سود تعریفوں کے پردے میں چھپا دیتے ہیں۔ جس کے سبب وہ لوگ جو آخر تک مولیٰ کی محبت میں وفادار رہتے ہیں، کبھی ان کی باتوں اور رہنمائی سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے اور رک جاتے ہیں، جبکہ وہ لوگ جو کچھ شعور رکھتے ہیں اور آج کی دنیا سے واقف ہیں، ایسے بے ثمر علی علیہ السلام (علی علیہ السلام کی ذات باثمر ہے ہم اپنے خام ذہنی تصورات میں اسے بے ثمر بنا دیتے ہیں ) اور بے سود محبت کو چھوڑ کر دوسری شخصیتوں نمونوں، اور رہنماوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ جبکہ علی علیہ السلام کی محبت اور عشق اس وقت انسانیت کو بچا سکتے ہیں جب وہ علی علیہ السلام کو پہچانیں اور ان کے عشق کو ایک نجات دہندہ عامل کے طور پر استعمال کریں۔

تئیس سال پیغمبر کے ساتھ، اسلامی مکتب کی بنیاد کے لیے:

مکہ کے تیرہ سال اور مدینہ کے دس سالوں میں، بعثت کے پہلے لمحے سے لے کر پیغمبر کی وفات تک، علی ع ہمیشہ ان کے ساتھ تھے اور سخت ترین خطرات میں سب سے آگے تھے۔ علی ع کی زندگی کا یہ خاص دور پیغمبر کی وفات کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ اس دور کو "مکتب سازی" کہا جاتا ہے۔ علی ع کی زندگی کے پہلے 23 سال، مکتب کے لیے جدوجہد کے 23 سال تھے۔

پیغمبر کی وفات کے فوراً بعد صورتحال اور محاذ آرائی تبدیل ہو گئی۔ قیادت بدل گئی، وہ طاقتیں اور گروہ جو اندرونِ جماعت خاموش اور پوشیدہ تھیں اور مکتب کے لیے جدوجہد کی عمومی صورتحال میں نظر نہیں آتی تھیں، منظرِ عام پر آ گئیں۔ مختلف گروہ واضح ہو گئے اور جماعت کے اندر چھپی ہوئی طاقتیں سامنے آ گئیں تو اب علی ع کی خاموشی کا آغاز ہوا۔ خاموشی اس معنی میں کہ وہ فریاد نہیں کر سکتے تھے چیخ نہیں سکتے تھے، کیونکہ اچانک وہ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو 23 سال تک ان کے ساتھ تھے، نہ عکرمہ، نہ ابوجہل اور نہ ہی ابوسفیان، بلکہ ان کے اپنے قریبی اور مخلص ساتھی، جو 23 سال تک مکتب کے لیے جدوجہد میں ان کے ساتھ تھے، اب ان کے سامنے کھڑے ہیں۔ ان سے لڑنا عظیم شخصیات کو تباہ کرنے کے مترادف تھا، جو بہرحال اس وقت اسلامی اتحاد اور طاقت کی علامت تھے۔

اتحاد کے لیے 25 سال کی خاموشی:

ایسی خاموشی جس کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت دونوں نے کم بات کی ہے۔

اسلامی اتحاد ان لوگوں کے ہاتھ میں تھا جو اس موقع سے اپنے مقام کو محفوظ رکھنے کے لیے فائدہ اٹھا رہے تھے، اور اس طرح علی ع کی خاموشی شروع ہوئی۔ یہ 25 سال کی خاموشی بدقسمتی سے ایسی خاموشی ہے کہ جس کے بارے میں نہ تو شیعوں نے بات کی ہے اور نہ ہی اہل سنت کے محققین نے۔ اس خاموشی نے علی ع کی قدر، ان کی عظیم شخصیت، ان کی جرات، ان کی قربانی، اور حق پرستی کو عوام کے ذہنوں میں واضح نہیں ہونے دیا۔

اسی لیے آج ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے پیروکار علی علیہ السلام کے مکہ میں پیغمبر کی جگہ سونے کے بارے میں بار بار ذکر کرتے ہیں مانا کہ یہ ایک بڑی قربانی ہے، لیکن علی ع کے لیے کوئی خاص بات نہیں۔ اسی طرح خیبر کے دروازے کو اکھاڑنے اور اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں بھی اسی قسم کی بات ہوتی ہے اور اسے علی ع کی بہادری کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن علی ع کی سب سے بڑی اور سخت ترین ذمہ داری، یعنی ان کی خاموشی، کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاتا۔ اور اگر کہا بھی جاتا ہے تو اسے مثبت انداز میں بیان نہیں کیا جاتا ۔

کہا جاتا ہے کہ "یہ خاموشی خوف کی وجہ سے تھی! علی نے بیعت کیوں کی؟ اگر نہ کرتے تو قتل کر دیے جاتے! انہوں نے تلوار کیوں نہ اٹھائی؟ وہ ڈرتے تھے! انہیں زبردستی لے جایا گیا وغیرہ وغیرہ

ایک ایسا دور آیا جب علی ع اچانک دیکھتے ہیں کہ اگر وہ ان لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جو اسلام کے نام پر ایک مقام حاصل کرنے کے لیے سامنے آئے تھے، تو مدینہ کے اندر، پیغمبر کے بعد ایک دھماکہ خیز حالات بن جاییں گے شخصیتوں کے درمیان اختلاف اور تنازعہ قبائل اور روم و ایران کی سلطنتوں کے لیے بہترین موقع تھا۔ کیونکہ جب وہ دیکھتے کہ مدینہ، یعنی اس عظیم انقلاب کا مرکز، اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے، تو وہ باہر سے آسانی سے ایک ہی حملے میں اسے ختم کر سکتے تھے، گو کہ تاریخ میں ایسا کوئی انقلاب ہوا ہی نہ ہو۔

علی علیہ السلام کے سامنے دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ داخلی گروہ کی خود غرضیوں اور سیاسی مخالف گروہ کی موقع پرستی کو برداشت کریں۔

بدقسمتی سے، داخلی گروہ اسلام کے اندر ہی گھس گیا تھا اور اسلام کے نام پر دنیا میں مشہور ہو چکا تھا، اور اسلامی قوتیں اس کے قبضے میں تھیں۔اس دور کی بڑی اور مشہور شخصتیں جیسے ابوعبیدہ بن جراح، سعد بن ابی وقاص، و۔۔ ان کے ساتھ تھے، جبکہ علی ع کے گروہ میں میثم تمار (کھجور فروش)، سلمان فارسی، جو ایران سے آئے تھے، ابوذر غفاری، جو نہ مدینہ کے تھے نہ مکہ کے بلکہ صحرا سے آئے تھے، اور بلال، جو ایک حبشی غلام تھے، شامل تھے۔ ان میں سے کسی کا بھی معاشرے میں کوئی نفوذ نہیں تھا۔ ان کا واحد سرمایہ انسانیت، تقویٰ، معنویت، اور اسلام کے لیے قربانی تھی، اور ان کے پاس کوئی اشرافی یا خاندانی بنیاد نہیں تھی۔ جو لوگ معاشرے میں اثر رکھتے تھے، ان کے ہاتھ علی علیہ السلام کے مخالف گروہ کے ہاتھوں میں تھے،

علی علیہ السلام نے اسلامی وحدت کی خاطر ان کی حکومت کو برداشت کیا اور خاموش رہے۔ ان پچیس سالوں میں، وہ بہادر جو ہمیشہ اپنی تلوار کے ساتھ میدان جنگ میں دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا اور جس کی ایک ضربت ثقلین کی عبادتوں پر بھاری تھی، خاموش رہا حتیٰ کہ انہوں نے دیکھا کہ اس کے گھر پر حملہ کیا گیا، پھر بھی خاموش رہا اس خاموشی کو علی ع نے ایک نہایت درد بھرے جملے میں بیان کیا: "آنکھ میں کانٹا اور گلے میں ہڈی کی مانند، پچیس سال گزار دیے۔"

پانچ سال کی حکومت برائے عدل و انصاف:

سن 35 ہجری میں کچھ انقلابی علی علیہ السلام کے گرد جمع ہو گئے اور عدل کی خاطر، وہی چیز جو انہیں عثمان میں نہ ملی اور اس کے خلاف قیام کیا، انہوں نے اسی کی خاطر علی ع کو حکومت کے لیے منتخب کیا۔ علی ع کی حکومت کا دور پانچ سال کا ہے۔ اس دور کا عنوان "مکتب کی جدوجہد" نہیں ہے، کیونکہ تمام منافق اور مومن گروہ اسلامی نعروں اور بنیادی اصولوں پر ایمان رکھتے تھے؛ سب توحید، نبوت، اور معاد پر ایمان رکھتے تھے، قرآن اور پیغمبر کی رسالت پر ایمان رکھتے تھے۔ لہٰذا یہ دور "مکتب کے استقرار کی جدوجہد" کا دور نہیں ہے۔ دوسری طرف، یہ دور "وحدت کے لیے خاموشی کا دور" بھی نہیں ہے؛ کیونکہ اب علی اقتدار میں ہیں اور قیادت کر رہے ہیں۔ اب اقلیت کو اپنے منافق اور مصلحت پرست ہمرزم کے خلاف خاموش رہنا اور برداشت کرنا چاہیے تاکہ مشترکہ دشمن کے حق میں نہ ہو؛ لیکن اب علی حکومت میں ہیں اور ان کی سب سے بڑی ذمہ داری وحدت نہیں بلکہ عدل و انصاف ہے۔

علی نے شروع سے ہی اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ میں اس حکومت اور تمہاری امارت سے بیزار ہوں، لیکن میں نے سوچا ہے کہ اس اقتدار کو حاصل کروں تاکہ شاید میں ان حقوق میں سے ایک حق کو، جو زمین پر گرا ہوا ہے، کھڑا کر سکوں، یا ان باطلوں میں سے ایک باطل کو، جو زمین پر کھڑا ہوا ہے، گرا سکوں۔ یہ علی کی زندگی کے تیسرے دور کا اعلان ہے۔

چالاک اور مقدس گدھے کے ساتھ جنگ

جب تمام عہدے تقسیم ہو چکے تھے اور ایران کی سلطنت، روم کی سلطنت اور مصر کی حکومت جیسے منافع بخش عہدے بنی امیہ، عثمان کے رشتہ داروں اور بڑے اصحاب کے ہاتھ میں تھے، علی ع آئے اور اچانک ان شخصیتوں کے مقابل کھڑے ہو گئے جنہوں نے پچھلے پچیس سالوں میں دین، جہاد اور اللہ کی تلوار کے نام پر سب کو قابو میں لے لیا تھا۔ اس دور میں جب عثمان اور معاویہ کی فضول خرچیوں کی آوازیں ہر جگہ گونج رہی تھیں، علی کا ردعمل ناقابل یقین اور برداشت سے باہر تھا۔

علی نے اعلان کیا کہ ان لوگوں سے، جنہوں نے لوگوں کا مال کھایا ہے، حتیٰ کہ اگر ان کی بیویوں کے مہر میں بھی دیاگیا ہو، وہ سب واپس لیا جائے گا۔ علی علیہ السلام کی پانچ سالہ جدوجہد انصاف کے قیام کے لیے تھی، کیونکہ یہاں کوئی مشرک نہیں تھا کہ مکتب کے لیے جنگ کی جائے، بلکہ منافق، لوگ چالاک اور مقدس گدھوں کی طرح تھے جن سے علی علیہ السلام کو جمل، صفین اور نہروان میں لڑنا تھا، اور جمل سب سے مشکل معرکہ تھا۔

صفین میں بنی امیہ کے پہچانے ہوئے پلید چہرے علی علیہ السلام کے خلاف لڑ رہے تھے، نہروان میں مقدس مومن تھے۔ لیکن جمل میں کون تھے؟ عائشہ ام المؤمنین، طلحہ الخیر، اور زبیر، عبد المطلب کے پوتے، یعنی سب سے بڑی اسلامی شخصتیں علی علیہ السلام کے مقابل تھیں۔

یہ جنگ ناقابل برداشت اور دھماکہ خیز تھی، حتیٰ کہ علی علیہ السلام کے پیروکاروں کے لیے بھی۔ ایک سپاہی نے علی علیہ السلام پر اعتراض کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر آپ نے انہیں نصیحت کی اور وہ صلح پر راضی نہ ہوئے تو آپ کیا کریں گے؟ علی علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں ان سے لڑوں گا۔ سپاہی نے حیرت سے پوچھا، حتیٰ کہ ام المؤمنین، طلحہ، اور زبیر سے بھی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ باطل پر ہوں؟

حق کا معیار شخصیتیں ہیں اور افراد نہیں!

علی نے یہاں وہ جملہ کہا جسے طہ حسین نے کہا: "انسانی زبان میں، جب سے بات چیت کا آغاز ہوا ہے، اس عظمت کا کوئی جملہ نہیں آیا"، اور وہ جملہ یہ ہے: "تم حق کو انسان سے جانچتے ہو، یا انسان کو حق سے؟ کیا تم حقیقت کو شخصیتوں سے جانچتے ہو یا شخصیتوں کو حقیقت سے؟" حق کا اپنا معیار ہے۔

نہروان میں، مخالف صف میں ایک دشمن قرآنی آیات کو بڑی دلنشین آواز سے پڑھ رہا تھا۔ اس آواز نے علی کے پیروکاروں کو متاثر کیا، اور ان میں سے ایک نے علی ع سے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ باطل پر ہوں؟ علی ع نے کہا کہ کل تمہیں دکھاؤں گا۔ اگلے دن جنگ شروع ہوئی اور یہ تمام مقدسین مارے گئے۔ علی نے اس شخص کو بلایا جو کل متاثر ہوا تھا، نیزے ایک مقدس چہرے والے شخص کی طرف کیا اور کہا: "یہ ہے اس شخص کا انجام جس نے کل تمہیں متاثر کیا تھا اور کل اس سے بھی بدتر ہوگا۔" حق کا معیار موجود ہے، اور ہمیں ان چیزوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔

کہاں ہیں انسانی حقوق کے مصنفین تاکہ انسانی حقوق پر عمل کر سکیں۔

علی کی عدالت اتنی سخت اور سنگین ہے کہ حتیٰ کہ ان کے بھائی عقیل کے لئے بھی شاق تھی۔

طلحہ اور زبیر، جب دیکھتے ہیں کہ علی کی خلافت میں وہ دو شہروں کی گورنری کی امید بھی نہیں رکھ سکتے، عائشہ کے پاس جاتے ہیں تاکہ جنگ شروع کریں۔ علی ع کے پاس آنے سے پہلے وہ شہر سے نکلنے کی اجازت لینے آتے ہیں۔ علی ان سے کہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ تم کہاں اور کس کام کے لیے جا رہے ہو، لیکن جاؤ!

یہ حیرت انگیز ہے! یہ دونوں افراد علی علیہ السلام کی حکومت کے دائرے سے باہر جانا چاہتے ہیں تاکہ علی علیہ السلام کے خلاف مسلح بغاوت کریں اور تلوار اٹھائیں اور علی علیہ السلام کے زمانے کی سب سے بڑی سازش کو ترتیب دیں۔ پھر بھی، علی علیہ السلام ان سے کہتے ہیں "جاؤ"! کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں انسان ہیں اور اگر وہ جرم کرنے سے پہلے انہیں جانے سے روک دیتے، تو وہ ان کی آزادی، جو ہر انسان کا حق ہے، چھین لیتے: سفر کی آزادی اور رہائش کی آزادی۔ اور اگر یہ آزادی چھین لی جاتی تو ایک ایسا قانون وجود میں آتا جس کا حوالہ دے کر تمام تاریخ کے ظالم اور جابر افراد لوگوں کی آزادی کو کچلنے کے لیے علی کا حوالہ دیتے۔

جیسا کہ جارج جرداق کہتے ہیں: "کہاں ہیں انسانی حقوق کے مصنفین تاکہ انسانی حقوق کو عمل میں سمجھ سکیں، نہ کہ تقریروں، خطبوں، تقریبات، اقوام متحدہ اور یونیسکو میں، جو سب جھوٹ ہیں۔"

تمام انقلابیوں کے لیے دنیا بھر میں یہ قانون ہے کہ وہ لوگ جو انقلابی تھے اور انصاف کے خواہاں تھے، اور جنہوں نے بارہا اپنی جان خطرے میں ڈالی، جیسے ہی حکومت میں آتے ہیں سب محتاط ہو جاتے ہیں۔ اور ہم آج بھی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کیسے بڑے انقلابی افراد اقتدار میں آنے کے بعد سیاست کے کھلاڑی بن جاتے ہیں، لیکن علی علیہ السلام کے لئے سب کچھ ایک جیسا پے جیسا کہ جارج جرداق کہتے ہیں، علی علیہ السلام وہ واحد انسان ہے جو پیغمبر کے گروہ میں ایک فرد کی حیثیت سے تھ اور مکتب کے لیے جدوجہد کرتا رہا اپنے پچیس سالہ سکوت کے دوران جب ان کے پاس اقتدار نہیں تھا، تب بھی وہ انقلابی رہا، اور اپنی پانچ سالہ حکومت میں، جب تمام اختیارات ان کے ہاتھ میں تھے، تب بھی انقلابی رہا۔ اور علی ع وہ واحد انسان ہیں جو پہلی بار اقتدار میں آئے اور کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔

جبکہ ابھی وہ مکمل طور پر اقتدار میں نہیں آئے تھے اور نہ ہی مدینہ پر قابو پایا تھا کہ انہوں نے معاویہ کو ہٹا دیا، جسے عمر ہٹا نہیں سکے تھے اور اسے رشوت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ شام کا لقمہ ابو سفیان کے بچوں کے گلے کے لیے چھوڑ دو۔ سب جانتے تھے کہ امیر شام اس معزولی کو نہیں مانے گا اور اسی کو بہانہ بنا کر جنگ کا آغاز کرے گا۔ اور سب جانتے تھے کہ علی اور معاویہ کی جنگ، نرم مزاج نیم روشن خیال شیعوں کی جنگ ہے، سخت گیر متعصب منظم لوگوں کے ساتھ، اور شکست علی ع کے گروہ کی ہوگی۔ لیکن علی ع کہتے ہیں کہ اگر میں یہ کام نہیں کروں گا اور ایک لمحہ کے لیے بھی معاویہ کے باقی رہنے پر صبر کروں گا تو میں اس جرم، فساد، اور ظلم میں شریک ہوں گا جو معاویہ اس لمحے میں کرے گا، اور میں بھی ذمہ دار ہوں گا، اور میں ایسی ذمہ داری قبول نہیں کرتا، چاہے اس کی قیمت ہر چیز کی تباہی ہی کیوں نہ ہو۔

علی وہ مرد ہے جس نے تئیس سال ایمان اور اپنی قوم میں ایک مقصد اور عقیدہ پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کی، پچیس سال تلخ سکوت برداشت کیا، اپنے ساتھیوں کی خود غرضیوں، سازشوں اور خود پسندیوں کو اسلام کے دشمن کے خلاف اتحاد کی خاطر برداشت کیا اور خاموش رہا، اور پانچ سال حکومت کی تاکہ مظلوم سے ظالم کا انتقام لے، عوام کے حقوق کو قائم کرے اور باطل کو ختم کرے۔

علی نے میثم خرما فروش کو دیکھا، جو اچھے اور خراب خرما الگ کر کے دو مختلف قیمتوں پر بیچ رہا تھا۔ علی ناراض ہو کر اس سے کہتے ہیں، "تم خدا کے بندوں کو کیوں تقسیم کرتے ہو؟" اور اپنے ہاتھوں سے اچھے اور خراب خرما کو ملا کر کہتے ہیں کہ سب کو ایک اوسط قیمت پر فروخت کرو، یعنی تمام عدل پسند مکتبوں میں مساواتِ مصرف، عدل کی بنیاد ہے۔

وہ معاشرہ جو اپنا ایمان، مقصد اور اعتقادی جوش کھو چکا ہے، اسے علی کی ضرورت ہے۔

تئیس سال مکتب، ایمان، عقیدہ کے لیے جدوجہد؛

پچیس سال ناگواریوں اور افراد کی خود غرضیوں کو مسلمانوں کے اتحاد کی خاطر برداشت کرنا؛ اور پانچ سال عوام کے درمیان انصاف قائم کرنے کے لیے حکومت کرنایہ علی ع کی میراث ہے۔

اسی لیے آج کا اسلامی معاشرے کا روشن خیال، خواہ وہ کسی بھی مذہب اور مکتب سے تعلق رکھتا ہو، اگر وہ آزاد اور آزادی پسند، استعمار مخالف اور تفریق کے خلاف ہے، تو اسے علی علیہ السلام کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آج اسلامی معاشرہ اپنا ایمان کھو چکا ہے، اپنا مقصد کھو چکا ہے، اور اس کے خیالات میں اعتقادی جوش مر چکا ہے، لہٰذا اسے مکتب کی ضرورت ہے جسے علی علیہ السلام نے قائم کیا۔

اسلامی معاشرے کو ایک انقلابی فکری آگ کی ضرورت ہے، مکتب کی حرارت کی ضرورت ہے۔ اور اسلامی معاشرے کو استعمار کے خلاف اتحاد کی ضرورت ہے؛ اور نظامِ تفریق میں مسلمانوں کو انصاف کی۔

اسی لیے: ہم سب کو "علی علیہ السلام" کی ضرورت ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha