حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے یکے بعد دیگرے بین الاقوامی ایام پر اپنے جاری اپنے پیغام میں کہا: اقوام متحدہ انسانی حقوق کی فراہمی کے اپنے دعوے میں کامیاب نہ ہو سکا، مقبوضہ کشمیر و فلسطین اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
انہوں نے کہا: انسانوں کو غلام بنانے کے ہر دور میں نئے انداز سامنے آئے، آج کے جدید دور میں فرد کی غلامی کی بجائے ریاستوں کو غلام بنا دیا گیا، عالم انسانیت آج سیاسی، معاشی و معاشرتی و تہذیبی غلامی میں جکڑی ہوئی ہے۔ جو سب سے قبیح شکل ہے۔
قائد ملت جعفریہ نے کہا: جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیاں ہیں مگر صرف یادداشتوں یا مختلف ایام منانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا: اقوام متحدہ کا قیام ہی انسانی حقوق کی فراہمی اور یکساں حقوق کی فراہمی کے لئے تھا مگر افسوس یہ اپنے ہدف میں کامیاب نہ ہوا۔ جس کا سب سے بڑا اور منہ بولتا ثبوت مقبوضہ کشمیر و مقبوضہ فلسطین کی موجودہ صورتحال ہے۔
علامہ سید ساجد نقوی نے کہا: افریقہ سے افغانستان تک انسانیت کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، کیا وہ عالمی ضمیر جھنجوڑنے کے لئے کافی نہیں؟ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تدارک صرف زبان سے نہیں ہو گا بلکہ اقوام متحدہ کو عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
انہوں نے غلامی کی یادداشت اور غلاموں کی تجارت سے متاثرہ افراد کی یادداشت کے عالمی دن پر کہا: انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے مگر ہر دور میں اسے ایک نئے انداز میں غلامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، دور حاضر میں فرد کی غلامی سے سخت قوموں اور ریاستوں کی غلامی نے لے لی ہے جو پہلے درجے سے کہیں زیادہ سخت ہے، اس وقت عالم انسانیت سیاسی، معاشی، معاشرتی (تہذیبی) غلامی میں جکڑ اہوا ہے، سب سے خطرناک تہذیبی غلامی ہے جس نے انسان کے شعور پر حملہ کر کے اس سے سوچنے اور جینے کا حق تک چھین لیا ہے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے لاپتہ اور زیر حراست افراد سے اظہار یکجہتی کے عالمی دن پر کہا: جبری گمشدگی انسانی عزت و تکریم کی توہین کے ساتھ غیر آئینی و غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین و انسانی حقوق کے چارٹرز کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے، بنی آدم جسے آزادی اس کے خالق نے دی، مخلوق یہ نعمت اس سے کسی صورت سلب نہیں کر سکتی، لاپتہ افراد کا معاملہ اب ملکوں سے بین الاقوامی سطح تک پہنچ گیا ہے جو انتہائی تشویشناک ہے، اس حوالے سے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کو صرف یادداشتیں، قراردادیں یا دن مختص کرنے سے بڑھ کر عملی اقدامات اٹھانا چاہئیں تاکہ بنی آدم کو درپیش اس سنگین خطرے اور اس کی اس طرح سے ہوتی بے توقیری کی روک تھام کی جا سکے۔
آپ کا تبصرہ