حوزہ نیوز ایجنسی I اسلامی حکومت میں خاندان کو صحت و سلامتی کا محور تصور کیا جاتا ہے اور اسے خاص تقدس حاصل ہے۔ اسی طرح عورت کو خاندان کا مرکز اور اساس قرار دیا گیا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: "نیک عورت خاندان کی ترقی کے دو اہم اسباب میں سے ایک ہے۔"
اسلامی نظام میں خاندان کو بنیادی اکائی کی حیثیت حاصل ہے، اور عورت اس اکائی کا مرکزی ستون ہے۔
آج جب مغرب لالچ اور حرص کے ساتھ اپنی حکمرانی کو عالمی سطح پر مسلط کرنے کے درپے ہے، تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ اسلامی تمدن اور اسلامی حکمرانی کے قیام کے لیے ہم نے کیا اقدامات کیے ہیں؟
کیا انسانی سرمائے کی تربیت اور ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے میں خواتین کا کردار اہم نہیں ہے؟
کیا مادری کا منصب، جو دنیا کی خلقت میں عورت کا پہلا اور کلیدی کردار ہے، فراموش کر دیا گیا ہے؟
کیا مسلم خواتین کی فکری خوراک اور ثقافتی شناخت ان کے ہاتھ میں ہے یا کسی اور کے قبضے میں چلی گئی ہے؟!!
حیا، عفت، غیرت اور جوانمردی جیسی اقدار ان پاکباز ماؤں کی فکرِ سالم کا نتیجہ تھیں جنہوں نے شہداء جیسے فرزند پروان چڑھائے۔ آج سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشروں کی خواتین اب بھی وہی صلاحیت اور شہید پروری کی قابلیت رکھتی ہیں؟
عالمی حکمرانی اور یکسان سازی کے ایک اہم پہلو میں سائبر اسپیس کو بطور وسیلہ استعمال کیا جا رہا ہے، جہاں لوگوں کو حقیقی فضا سے کاٹ کر ورچوئل دنیا میں لے جایا جاتا ہے تاکہ ان کے افکار اور طرز زندگی پر اثر انداز ہو سکیں۔ چونکہ حقیقی دنیا میں خاندان بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور خاندان کا مرکز عورت ہے، اس لیے عورت کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ سائبر اسپیس کے ذریعے خواتین کے افکار، اعتقادات اور طرز عمل کو بدلا جائے، تاکہ عورت اور پھر خاندان زوال پذیر ہو جائے اور یوں عالمی حکمرانی کا خواب پورا ہو سکے۔
عورت کے نسوانی کرداروں کی قدروں کو بدل کر اسے ایک "شے" کی حیثیت دی جا رہی ہے، تاکہ وہ حکمرانوں کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکے۔
خواتین کی ظاہری خوبصورتی، جسمانی نمائش اور بے پردگی پر حد سے زیادہ زور دے کر مادری تربیت اور رہنمائی کا جذبہ ان سے چھین لیا گیا ہے، جس کا نتیجہ ایسے بچے ہیں جن کی بصیرت محدود اور لذت پرستی پر مبنی ہے۔
اس بے ہنگم بازار اور سائبر دنیا میں دینی قیادت کی کمی نے معاشروں اور خاندانوں میں دردناک مناظر کو جنم دیا ہے۔ بے حیائی اور بے غیرتی دو ایسے سیری ناپذیر اژدہے بن چکے ہیں جو معاشروں کی ثقافت کو نگل رہے ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ خواتین کے شعور کی سطح بلند کی جائے، مادری کے مقدس مقام کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے، اور خدا محور، بااخلاق نسل کی تربیت پر توجہ دی جائے۔
اسی طرح اسلامی ممالک کے ثقافتی کارکنان اور سائبر اسپیس کے اثرانداز افراد کو چاہیے کہ وہ اس میدان میں ثقافتی خودمختاری کو فروغ دیں، تاکہ جلد از جلد اس تباہی کو روکا جا سکے اور انسانی کمال و ارتقاء کے افکار اس زہریلے ماحول کی جگہ لے سکیں۔









آپ کا تبصرہ