جمعرات 22 مئی 2025 - 06:34
امام زمانہ (عج) کی طویل عمر

حوزہ/ تمام آسمانی ادیان کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ کائنات کے ہر ذرہ پر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اختیار ہے، اور تمام اسباب و علل کی تاثیر اس کی مشیت پر موقوف ہے؛ اگر وہ نہ چاہے تو اسباب بے اثر ہو جاتے ہیں، اور وہ بغیر کسی ظاہری سبب کے بھی پیدا کر سکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تمام آسمانی ادیان کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ کائنات کے ہر ذرہ پر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اختیار ہے، اور تمام اسباب و علل کی تاثیر اس کی مشیت پر موقوف ہے؛ اگر وہ نہ چاہے تو اسباب بے اثر ہو جاتے ہیں، اور وہ بغیر کسی ظاہری سبب کے بھی پیدا کر سکتا ہے۔

امام مہدی علیہ السلام کی زندگی سے متعلق مباحث میں سے ایک اہم موضوع امام کی طویل عمر ہے۔ کچھ افراد کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک انسان اتنی طویل عمر کیسے پا سکتا ہے؟!

یہ سوال اس وجہ سے اٹھایا جاتا ہے کہ آج کی دنیا میں عام طور پر انسانوں کی عمریں محدود ہوتی ہیں، اور اسی معیار پر پرکھتے ہوئے بعض لوگ طویل عمر کو ناقابلِ یقین سمجھ بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ عقل و علم کی رو سے طویل عمر کوئی ناممکن چیز نہیں۔ طبی و سائنسی ماہرین نے انسانی بدن کے اجزاء کا مطالعہ کر کے اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ انسان بہت طویل عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے، حتیٰ کہ بڑھاپے اور جسمانی زوال کا بھی شکار نہ ہو۔

سائنسدانوں کی جانب سے بڑھاپے پر قابو پانے اور طویل عمر حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی کوششیں اس امر کا ثبوت ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔ درحقیقت وہ اس راستے میں کامیاب قدم بھی اٹھا چکے ہیں۔

آسمانی اور تاریخی کتب میں متعدد افراد کے نام اور حالات تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں جنہوں نے آج کے انسانوں سے کہیں زیادہ طویل عمر پائی۔

قرآن مجید کی ایک آیت طویل عمر ہی نہیں بلکہ ابدی زندگی کے امکان کی خبر دیتی ہے۔ سورہ صافات میں حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا:

"فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ، لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ"

(اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔)

یعنی قرآن کی نظر میں ابدی عمر بھی ممکن ہے، اور یہ نہ صرف انسان بلکہ حیوان (مچھلی) کے لیے بھی قابل تصور ہے۔

اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا:

"وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا"

(اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، پس وہ ان میں نو سو پچاس سال ٹھہرے۔)

یہ مدت ان کی رسالت کی ہے، جبکہ بعض روایات میں ان کی عمر ۲۴۵۰ سال بیان کی گئی ہے۔

امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں ہے:

"فِي الْقَائِمِ مِنَّا سُنَنٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ... فَأَمَّا مِنْ آدَمَ وَنُوحٍ فَطُولُ الْعُمُرِ"

(ہمارے قائم میں انبیاء کی سنتیں پائی جاتی ہیں، اور آدم و نوح سے جو سنت ہے، وہ طویل عمر ہے۔)

قرآن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی فرماتا ہے:

"وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ... بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ"

(نہ تو انہوں نے انہیں قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان پر مشتبہ ہو گیا... بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔)

یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں، آسمان پر اٹھائے گئے، اور ان کا دوبارہ ظہور ہونا ہے، لہٰذا ان کی عمر اب دو ہزار سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔

توریت میں بھی طویل العمر انسانوں کا ذکر ملتا ہے، جیسے:

آدم ۹۳۰ سال زندہ رہے، شیث ۹۱۲ سال، لمک ۷۷۷ سال اور نوح ۵۰۰ سال کی عمر میں سام، حام اور یافث کے باپ بنے۔

(سفر پیدایش، باب پنجم)

انجیل میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے اور دوبارہ نزول کا ذکر ملتا ہے، جو ان کی طویل عمر کا واضح ثبوت ہے۔

لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہودی و عیسائی دونوں اپنے آسمانی کتابوں کی بنا پر طویل عمر کے قائل ہونے چاہییں۔

اس کے علاوہ، طویل عمر نہ صرف عقلی و سائنسی اعتبار سے ممکن ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی لامحدود قدرت کی روشنی میں یہ بالکل قابلِ قبول ہے۔ تمام اسباب و وسائل اللہ کے اختیار میں ہیں، وہ جب چاہے اثر کو سلب کر دے یا بغیر کسی سبب کے کسی چیز کو وجود میں لے آئے۔

وہی خدا جس نے پہاڑ سے اونٹنی نکالی، آگ کو ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈا کیا، اور موسیٰ علیہ السلام کے لیے سمندر کو چیر کر راستہ بنایا، کیا وہ امام زمانہ علیہ السلام کو – جو اوصاف انبیاء کا نچوڑ، اولیاء کی امانت، خدا کا آخری ذخیرہ، اور قرآن کے وعدہ کی تعبیر ہیں – طویل عمر دینے پر قادر نہیں؟!

ماخذ: کتاب "نگینِ آفرینش" (مختصر تبدیلی کے ساتھ)

(یہ سلسلہ جاری ہے...)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha