حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزه نیوز کے نامہ نگار سے گفتگو میں حجت الاسلام والمسلمین حسین علی عامری نے کاشان میں بیان کیا: قرآن مجید میں حضرت مهدی (عجل اللہ فرجہ الشریف) کے ظہور سے متعلق بہت سی آیات موجود ہیں۔
انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ سورہ صف کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرماتا ہے: "هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَیٰ وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ" (وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو)۔
انہوں نے وضاحت کی: یہ آیت حضرت امام زمانہ (عج) کے ظہور پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس آیت اور دیگر آیات میں اسلام کی تمام ادیان پر عالمی سطح پر غلبہ اور فتح کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس فتح سے مراد تمام ادیان پر اسلام کی بالادستی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام مذاہب اور ادیان پر غالب کر دے۔ اس غلبے سے مراد منطقی اور استدلالی فتح ہے، یعنی اللہ اسلام کے منطق کو دیگر ادیان پر غالب کرے گا۔
انہوں نے بتایا: دوسرے مفسرین نے سورہ صف کی آیت 9 کی یوں تفسیر کی ہے کہ اسلام کا تمام ادیان و مذاہب پر حتمی فتح حضرت عیسیٰ (ع) کے آسمان سے نزول اور حضرت حجت بن الحسن العسکری (عج) کے قیام کے وقت ہوگی۔ اس وقت اسلام عالمگیر ہو جائے گا۔ یہ وہ خلاصہ ہے جو مفسرین کی طرف سے بیان کی گئی مختلف احتمالی تشریحات کا نچوڑ ہے۔
حجت الاسلام عامری نے کہا: بعض مفسرین کہتے ہیں کہ منطقی اور استدلالی فتح کی بات کے غلط ہونے میں کوئی شک نہیں، کیونکہ اسلام کے آغاز ہی سے واضح تھا کہ یہ ایک منطقی اور استدلالی دین ہے، اس لیے اس کے لیے وعدے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر ہم لفظ "ظہور" اور "اظہار" (جو "لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ" اور دیگر مشابہ آیات سے ماخوذ ہے) پر توجہ دیں تو اس کا مطلب بیرونی اور عملی غلبہ ہے، نہ کہ محض منطقی اور استدلالی۔ اسی لیے اصحاب کہف کے واقعے میں پڑھتے ہیں: "إِنَّهُمْ إِن یَظْهَرُوا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوکُمْ" (اگر وہ [بادشاہ دقیانوس] تم پر غالب آ جائیں تو تمہیں سنگسار کر دیں گے)۔ یہ منطقی غلبہ نہیں بلکہ عملی اور بیرونی غلبہ ہے۔
انہوں نے واضح کیا: اس آیت میں جہاں اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے پیغمبر اسلام کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا "لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ"، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے انہیں اس لیے بھیجا تاکہ یہ دین غالب آئے، پھیلے، عالمگیر ہو اور دنیا کے تمام ادیان تک پہنچ جائے۔ لہٰذا، یہ آیت قرآن کریم کی ان آیات میں سے ایک ہے جو امام زمانہ (عج) کے ظہور کی دلیل ہے۔ البتہ، یہ آیت ابھی پوری نہیں ہوئی ہے، یعنی وہ حتمی، عالمگیر اور ناقابل تردید غلبہ ابھی تک رونما نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا: یہ آیت کب پوری ہوگی؟ پھر جواب دیتے ہوئے کہا: روایات کے مطابق جب حضرت مہدی موعود (عج) ظہور فرمائیں گے، تب اس آیت کا حقیقی معنی و مفہوم پورا ہوگا۔
انہوں نے یاد دلایا: یہ آیت ایک طرف تو حضرت مہدی (عج) کے ظہور کی تائید کرتی ہے، کیونکہ اسلام ابھی تک اپنے حقیقی معنوں میں نہ پھیل سکا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر قائم ہوا ہے۔ البتہ صدر اسلام (پیغمبر کے زمانے) میں اسلام پھیلا ضرور، لیکن وہ اس حتمی مرحلے تک نہ پہنچ سکا جہاں وہ تمام مذاہب، ادیان اور دنیا پر عملی طور پر غالب آ جاتا اور حقیقتاً اسلام کے علاوہ کوئی دین، مذہب یا آیین باقی نہ رہتا۔ یہ واقعہ رونما نہیں ہوا، اور یہ اہم کام حضرت مہدی (عج) کے ظہور کے وقت انجام پائے گا۔
انہوں نے زور دے کر کہا: یہ آیت امام زمانہ (عج) کے ظہور کی دلیل ہے، اور دوسری طرف، حضرت مہدی (عج) کا ظہور اس آیت کے حقیقی معنی کو پورا کرے گا۔
انہوں نے ایک اہم روایت بیان کی: امام صادق (ع) سے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے قسم کھا کر فرمایا: "وَاللّهِ! ما نَزَلَ تَأویلُها بَعدُ، وَ لا یَنزِلُ تَأویلُها حَتّی یَخرُجَ القائِمُ، فَإذا خَرَجَ القائِمُ لَمْ یَبْقَ کافِرٌ بِاللّهِ العَظیمِ" (خدا کی قسم! اس آیت کا حقیقی مفہوم ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے، اور وہ اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک قائم (عج) ظہور نہیں فرماتے۔ پس جب وہ قیام فرمائیں گے تو ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کا کوئی منکر باقی نہیں رہے گا)۔
اس وقت سب موحد اور مسلمان ہو جائیں گے اور آیت "لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ" (تاکہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے) کا حقیقی مفہوم پورا ہو جائے گا۔
حجت الاسلام والمسلمین عامری نے آخر میں تاکید کی: سورہ صف کی آیت 9 کا مفہوم قرآن کریم کی دو دیگر سورتوں یعنی سورہ توبہ کی آیت 33 اور سورہ فتح کی آیت 28 میں بھی دہرایا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ سبحانہٗ نے قرآن مجید میں بار بار زور دے کر نوعِ انسانی کے نجات دہندہ حضرت بقیت اللہ (عج) کے ظہور کے مسئلے کو پیش کیا ہے اور اس موضوع کو خاص اہمیت دی ہے۔









آپ کا تبصرہ