حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انسان کی فطرت میں مال و دولت، آسائش اور آرام سے گہری وابستگی پائی جاتی ہے، اور انہی چیزوں کو چھوڑنا اکثر انسان کے لیے سب سے مشکل ہوتا ہے۔ قربانی کا عمل درحقیقت اسی وابستگی اور خودپرستی سے نجات کا ایک راستہ ہے۔ یہ ایک اخلاقی و روحانی تربیت ہے جو ایثار، فداکاری اور قربتِ الٰہی کا مظہر ہے۔
ایک عام سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ کیا قربانی کرنا حیوانات کے حقوق کے خلاف نہیں؟ اس سوال کا جواب دینا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ہم قربانی کی حقیقت اور اس کے تاریخی و دینی پس منظر کو سمجھیں۔
قربانی صرف اسلام تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے مختلف مذاہب اور تمدنوں میں اس کی گہری جڑیں رہی ہیں:
1. یہودیت: یہودی مذہب میں معبد بیت المقدس میں جانوروں کی قربانی ایک اہم مذہبی رسم تھی۔ تورات کی کتاب لاویان (باب 1 تا 7) میں مختلف اقسام کی قربانیوں کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔
2. مسیحیت: مسیحی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انسانوں کے گناہوں کی بخشش کے لیے خود کو قربان کیا۔ ان کے نزدیک قربانی اب ایک روحانی اور علامتی مفہوم اختیار کر چکی ہے۔
3. ہندو مت: ہندو دھرم کی بعض قدیم شاخوں میں بھی مذہبی مقاصد کے لیے جانوروں کی قربانی دی جاتی تھی، جسے یَجْنَ کہا جاتا ہے۔ تاہم آج کل یہ عمل اکثر علامتی اور غیر مادی شکل میں انجام دیا جاتا ہے۔
4. یونانی و رومی مذاہب: قدیم روم اور یونان کے مذاہب میں بھی دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے جانوروں کی قربانی ایک عام رسم تھی۔
ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی ایک قدیم، عالمی اور انسانی روایت ہے جو ہمیشہ کسی اعلیٰ مقصد یا روحانی تقرب کے لیے کی جاتی رہی ہے۔ یہ صرف ایک ظاہری عمل نہیں بلکہ ایک فطری جذبے کی علامت ہے جو انسان کو اس کی خودغرضی سے نکال کر ایثار، عبودیت اور بلند تر حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔
لہٰذا اگر قربانی کو محض حیوانی جان کا خاتمہ سمجھا جائے تو یہ اس کی گہرائی اور حکمت سے ناواقفیت ہے۔ قربانی دراصل ایک تربیتی عمل ہے، جس کا مقصد روح کی پاکیزگی، خودی کی قربانی، اور خدا سے قریب تر ہونا ہے۔
قربانی کی فلسفہ کیا ہے؟
قربانی ایک ایسا عمل ہے جو بظاہر جانور کو ذبح کرنے پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن اس کے پیچھے ایک گہرا انسانی اور اخلاقی پیغام پوشیدہ ہے۔ اگر کسی ایسے شخص سے گفتگو ہو جو مذہب یا دینی متون پر زیادہ اعتماد نہ رکھتا ہو، تو سب سے پہلے اس مسئلے کو عقل و منطق کی روشنی میں سمجھایا جا سکتا ہے:
انسان کی زندگی میں سب سے بڑی آزمائش، اس کی "خودی" اور "خواہشات" ہوتی ہیں۔ جب انسان کسی چیز سے شدید محبت کرتا ہے، چاہے وہ مال ہو، مقام ہو، یا کوئی عزیز، تو اس چیز کو چھوڑنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ قربانی دراصل اسی جذباتی وابستگی پر قابو پانے کی ایک مشق ہے۔ یعنی انسان اس عمل کے ذریعے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات، آرام اور دلبستگیوں کو ایک اعلیٰ و برتر مقصد کے لیے قربان کر سکتا ہے۔
قربانی کا مطلب صرف جانور کاٹنا نہیں، بلکہ اپنے اندر کی "خودپرستی" کو کاٹنا ہے۔ یہ ایثار، فداکاری اور اعلیٰ انسانی صفات کو پروان چڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر ہم صرف جانور کی جان لینے کو دیکھیں تو شاید بات سمجھ نہ آئے، لیکن اگر اس کے پیچھے موجود تربیتی پہلو پر غور کریں، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسان کو بہتر اور بلندتر بننے کی دعوت دیتا ہے۔
اب اگر ہم دینی زاویے سے دیکھیں تو قربانی اسلام میں ایک علامتی اور عبادتی عمل ہے، جس کی بنیاد انسان کی خدا کے سامنے مکمل تسلیم و اطاعت پر ہے۔ قرآن کریم حضرت ابراہیم (ع) اور ان کے بیٹے اسماعیل (ع) کی داستان میں اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے: "پس جب دونوں نے (خدا کے حکم کے سامنے) سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا، ہم نے ندا دی: اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ بے شک ہم نیکوکاروں کو یوں ہی جزا دیتے ہیں" (سورہ صافات: 103-105)
اس واقعے میں اصل بات "تسلیم" اور "ایثار" کی ہے، نہ کہ خود ذبح کی۔ چنانچہ خداوند متعال نے اسماعیل کی جگہ ایک عظیم قربانی عطا فرمائی، جس سے واضح ہوتا ہے کہ نیت، روح بندگی اور خلوص اصل مطلوب ہیں، نہ کہ جانور کا گوشت یا خون۔
اسی مفہوم کو قرآن ایک اور جگہ یوں بیان کرتا ہے: "اللہ کو نہ ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ تمہاری پرہیزگاری اسے پہنچتی ہے" (سورہ حج: 37)
یعنی خدا کے نزدیک جسمانی عمل سے زیادہ، دل کی کیفیت اور نیت کی پاکیزگی اہم ہے۔
شیعہ منابع میں بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ قربانی ایک رمزی اور اخلاقی عمل ہے، نہ کہ صرف رسم۔ شیخ صدوقؒ جیسی معتبر دینی شخصیات نے اس بات کو اپنی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ قربانی کا اصل مقصد تقربِ الٰہی اور تزکیۂ نفس ہے، نہ کہ صرف ذبح۔
خلاصہ یہ ہے کہ قربانی ایک انسانی، اخلاقی اور روحانی پیغام رکھتی ہے: اپنے نفس کی خواہشات پر قابو، ایثار کی تربیت، اور بلند تر مقصد کے لیے خود کو قربان کرنے کا حوصلہ۔ یہ محض جانور کی قربانی نہیں، بلکہ ایک انسان کی اپنی "خودی" کی قربانی ہے۔
کیا قربانی اسلام میں ضروری ہے؟ کیا یہ عمل حیوانات کے حقوق کے خلاف نہیں؟
اسلام میں ہر حکم کے پیچھے ایک حکمت پوشیدہ ہے۔ قربانی بھی ایک ایسا عمل ہے جس پر بعض افراد سوال اٹھاتے ہیں، خصوصاً وہ لوگ جو جانوروں کے حقوق کے حوالے سے حساس ہیں۔ لیکن اگر اس عمل کو عقلی، اخلاقی اور دینی زاویوں سے دیکھا جائے، تو قربانی نہ صرف ایک ظلم نہیں بلکہ ایک انسان دوست، اخلاقی اور سماجی عبادت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ذیل میں قربانی کے مختلف پہلوؤں پر ایک جامع نظر ڈالی گئی ہے:
1. قربانی: ایثار اور خودغرضی کے خلاف ایک عملی سبق
انسان فطری طور پر اپنے مال و دولت سے محبت کرتا ہے۔ قربانی کا دن، انسان کو سکھاتا ہے کہ وہ اپنی پسندیدہ چیز (یعنی جانور) کو خدا کی راہ میں دے کر اپنی خودپسندی اور دنیاوی وابستگی پر قابو پائے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ: "قربانی اس لیے واجب ہوئی تاکہ محتاجوں کو گوشت ملے اور انسان خدا کے قریب ہو۔" (علل الشرائع، ج ۲، ص ۸۶)
یہ قربانی ایک طرف خدا سے قربت کا ذریعہ ہے اور دوسری طرف ایک فلاحی و سماجی عمل بھی۔
2. قربانی: سماج میں غذائی انصاف کا ذریعہ
کئی معاشروں میں گوشت امیروں کی خوراک بن چکا ہے، جبکہ غریب سارا سال اسے دیکھنے کو بھی ترس جاتے ہیں۔ قربانی کا مقصد صرف جانور ذبح کرنا نہیں بلکہ اس کے گوشت کو ان لوگوں تک پہنچانا ہے جو اسے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:"قربانی ایک مؤکد سنت ہے اور اس کا گوشت فقرا، یتیموں اور مسکینوں کو کھلایا جائے۔" (من لا یحضره الفقیه، ج ۲، ص ۳۵۰)
3. قربانی: تشدد نہیں بلکہ عبادت اور نرمی کا پیغام
کچھ لوگ جانور کو ذبح کرنے کو تشدد سمجھتے ہیں، لیکن اسلام میں اس عمل کو صرف اس وقت جائز سمجھا گیا ہے جب:
اس کا مقصد غذا فراہم کرنا ہو؛
اسے انتہائی نرم اور تیز طریقے سے ذبح کیا جائے تاکہ کم سے کم تکلیف ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: "اللہ نے ہر چیز میں حسن و نیکی واجب کی ہے؛ جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے کرو، چاقو تیز کرو اور جانور کو آرام پہنچاؤ۔" (الامالی، مجلس ۳۲)
4. اسلام میں حیوانات کو حق دار مخلوق سمجھا گیا ہے
اسلام میں جانور صرف ایک بے جان چیز نہیں بلکہ ایک جاندار مخلوق ہے جس کا بھی ایک احترام ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "کبھی ایک گوسفند کو دوسرے کی نظروں کے سامنے ذبح نہ کرو۔"(الکافی، ج ۶، ص ۲۳۲)
یہ اخلاقی تعلیمات ظاہر کرتی ہیں کہ اسلام نہ صرف انسان بلکہ حیوانات کی روحی کیفیت کا بھی لحاظ رکھتا ہے۔
5. مغربی نظام اور اسلامی قربانی کا موازنہ
آج کے جدید صنعتی نظام میں:
جانوروں کو چھوٹے پنجرے، بھوک، خوف اور بے رحمی سے پال کر مارا جاتا ہے؛
گوشت صرف امیروں تک محدود ہوتا ہے؛
ذبح کا طریقہ بھی غیرانسانی ہوتا ہے۔
اسلامی طریقے میں:
جانور صحت مند اور آزاد ہو؛
ذبح انتہائی نرمی سے ہو؛
گوشت کا زیادہ تر حصہ مستحقین کو دیا جائے۔
نتیجہ:
اسلام میں قربانی:
ایثار و قربانی کا درس ہے؛
فقر و فاقہ کے خاتمے کا ذریعہ ہے؛
حقوقِ حیوانات کی مکمل رعایت پر مبنی ہے؛
اخلاقی و روحانی بلندی کا ذریعہ ہے.
اور جدید دنیا کے ظالمانہ حیوانی نظام سے زیادہ عادلانہ اور انسانی عمل ہے۔
لہٰذا، اگر کسی کو واقعی اخلاق اور حیوانی حقوق
کی فکر ہے، تو اسے چاہیے کہ قربانی کی نیت، طریقہ اور نتیجہ کو دیکھے، نہ کہ صرف ظاہری عمل کو۔









آپ کا تبصرہ