حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی جانب سے گزشتہ شب اسرائیلی علاقوں پر ہونے والے شدید حملوں نے تل ابیب کے اندر بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اسرائیل کے ایک معروف سیکیورٹی تجزیہ کار نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ کشیدگی جاری رہی تو حالات اس نہج پر پہنچ سکتے ہیں کہ اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے ایران سے "التماس" کرنا پڑے اور ممکن ہے کہ ایران اس مطالبے کو مسترد کر دے۔
یہ انتباہ اسرائیلی امور کے معروف تجزیہ نگار یوسی میلمن نے اتوار کے روز دیا۔ انہوں نے ایران کی جانب سے اسرائیل پر کاری ضربوں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا: "شروع میں جو جوش تھا، وہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ جمعہ کی صبح میں نے خود سے پوچھا: کیا واقعی ایران جیسے ملک کے ساتھ جنگ چھیڑنا ضروری تھا؟"
یوسی میلمن نے ایران کی تاریخی مزاحمت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "شیعہ قوم تاریخی طور پر رنج و مشقت برداشت کرنے کی عادی ہے۔ وہ قربانی دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہی ہے، جیسا کہ انہوں نے آٹھ سالہ ایران-عراق جنگ کے دوران بھی ثابت کیا۔"
انہوں نے اسرائیلی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا:
"میری تجویز ہے کہ ہم مزید نقصان سے بچنے کے لیے فوری اقدامات کریں، اور اگر ممکن ہو تو ٹرمپ سے رجوع کر کے کسی معقول معاہدے کے ذریعے اس پاگل پن کا خاتمہ کریں۔ بصورت دیگر ہمیں ایران سے جنگ بندی کے لیے بھیک مانگنی پڑے گی جو شاید قبول نہ کی جائے۔"
اسرائیلی میڈیا کے مطابق، ایران کے گزشتہ 48 گھنٹوں کے حملوں نے تل ابیب، حیفا اور دیگر علاقوں میں نمایاں جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یوسی میلمن، جو اخبار ہاآرتص اور یدیعوت آحارونوت جیسے بڑے اسرائیلی اخبارات میں لکھتے رہے ہیں، اس سے پہلے بھی ایران کے خلاف کسی فوجی مہم جوئی پر تنقید کر چکے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایران نہ صرف عسکری طور پر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، بلکہ اس کی قوم ثقافتی اور تاریخی لحاظ سے بھی طویل جنگوں اور دباؤ کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔
اپنے تازہ ترین تجزیے میں میلمن نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ موجودہ روش جاری رہی تو اسرائیل ایک ایسے مقام پر پہنچ سکتا ہے جہاں جنگ بندی کے لیے جھکنا پڑے مگر تب تک ایران شاید آمادہ نہ ہو۔









آپ کا تبصرہ