حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اہل بیت علیہم السلام کے عاشقوں اور چاہنے والوں کے ذہن میں ایک اہم سوال ہمیشہ گردش کرتا رہا ہے: جب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی تو امام حسین علیہ السلام نے یزید کے خلاف قیام کیوں کیا؟ دونوں معصومین کا ہدف ایک ہی تھا — اسلام کی بقا — تو پھر راہیں مختلف کیوں ہوئیں؟
اس سوال کے جواب میں حجۃ الاسلام والمسلمین مصطفی محسنی فرماتے ہیں کہ ہر امام معصوم (علیہ السلام) اپنے زمانے کی مخصوص سیاسی و اجتماعی صورت حال کے مطابق وہی راہ اختیار کرتا ہے جو دینِ اسلام کی حفاظت کے لیے سب سے مؤثر ہو۔
ائمہ معصومین علیہم السلام کی اولین ترجیح ہمیشہ دینِ اسلام کی حفاظت اور رہنمائی رہی ہے۔ ان کا ہدف قیام یا صلح بذاتِ خود نہیں، بلکہ یہ سب اسلام کو باقی رکھنے کے ذرائع تھے۔ لہٰذا:
کبھی خاموشی،
کبھی صلح،
کبھی قیام،
اور کبھی تربیت و تعلیم جیسے اقدامات کو اپنایا گیا۔
صلح امام حسنؑ کیوں؟
امام حسن علیہ السلام نے اس وقت صلح کو ترجیح دی جب:
ان کا لشکر کمزور ہو چکا تھا،
فوج میں اختلافات پھیل چکے تھے،
معاویہ نے اسلام کا ظاہری چہرہ برقرار رکھا ہوا تھا،
اور صلح کے بغیر شیعہ مکمل تباہی کے دہانے پر تھے۔
قیام امام حسینؑ کیوں؟
امام حسین علیہ السلام نے قیام اس وقت کیا جب:
یزید علناً فسق و فجور کا نمائندہ بن چکا تھا،
شراب، قمار اور بے حیائی اس کے دربار کا حصہ بن چکے تھے،
اور خاموشی کا مطلب تھا کہ دینِ اسلام کو مٹنے دیا جائے۔
قابلِ غور ہے کہ امام حسینؑ نے بھی معاویہ کے دور میں قیام نہیں کیا کیونکہ وہ دور بھی امام حسنؑ کے دور جیسا تھا، یعنی فریب، دکھاوا اور اسلام کا ظاہری احترام باقی تھا۔ لیکن جب یزید نے کھلم کھلا دین کی توہین شروع کی تو خاموشی ممکن نہ رہی۔
لہذا
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام، دونوں نے دین کی بقا کے لیے الگ الگ حکمتِ عملی اپنائی، لیکن ان کا ہدف ایک تھا: اسلام کو نجات دینا۔
یہ فرق ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ راہ ایک ہی ہو سکتی ہے، مگر وقت و حالات کے مطابق اس کے اظہار کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ