2 محرم الحرام: اہل حرم کے قافلے کی کربلا آمد

حوزہ/ 2 محرم سن ۶۱ ہجری قمری، تاریخ اسلام کا ایک فیصلہ کن دن ہے؛ وہ دن جب امام حسین علیہ السلام کا قافلہ، حر بن یزید ریاحی کے حکم پر سرزمین کربلا میں رک گیا۔ یہ وہی دن ہے جس نے کربلا کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی اور حماسی داستان کا مرکز بنا دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، 2 محرم سن ۶۱ ہجری قمری، تاریخ اسلام کا ایک فیصلہ کن دن ہے؛ وہ دن جب امام حسین علیہ السلام کا قافلہ، حر بن یزید ریاحی کے حکم پر سرزمین کربلا میں رک گیا۔ یہ وہی دن ہے جس نے کربلا کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی اور حماسی داستان کا مرکز بنا دیا۔ امام حسین علیہ السلام کے ہر قدم نے عشق، ایثار اور وفا کا نیا مفہوم رقم کیا۔

امام حسین علیہ السلام کا کربلا میں ورود

امام حسین علیہ السلام نے اہل کوفہ کے مسلسل خطوط اور دعوت کے جواب میں مکہ سے کوفہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا۔ اگرچہ مدینہ کے بعض جلیل القدر افراد جیسے محمد بن حنفیہ، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن جعفر اور عبداللہ بن عمر نے آپ کو اس سفر سے باز رکھنے کی کوشش کی، تاہم آپ نے اسے اپنے لیے ایک شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے اس راہ کو اختیار کیا۔

ماہِ ذی الحجہ سن ۶۰ ہجری میں آپ مکہ مکرمہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ عراق کی حدود میں داخل ہونے کے بعد جب امام کا قافلہ مقامِ شراف پر پہنچا تو حر بن یزید ریاحی ایک ہزار سپاہیوں کے ساتھ آپ کے مقابل آیا، جسے عبیداللہ بن زیاد نے تعاقب اور مزاحمت کے لیے بھیجا تھا۔

حر بن یزید، عبیداللہ کی روزانہ کی ہدایات کے تحت امام علیہ السلام پر سخت نظر رکھےہوئے تھا۔ آخر کار اس نے آپ کو ایک ویران اور بنجر سرزمین کی طرف موڑ دیا اور 2 محرم کو کربلا کے بیابان میں آپ کا راستہ روک دیا۔ جب امام حسین علیہ السلام نے اس سرزمین کا نام "کربلا" سنا تو فرمایا: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَرْبِ وَالْبَلَاءِ

(اے اللہ! میں تجھ سے کرب و بلا سے پناہ مانگتا ہوں)

پھر فرمایا: "یہ مقام کرب و بلا کا ہے، مصیبت اور رنج و الم کی جگہ ہے، یہیں ہم قیام کریں گے، یہی ہمارا آخری پڑاؤ ہے، یہیں ہمارا خون بہایا جائے گا اور ہماری قبریں بنیں گی، میرے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس کی خبر دی ہے۔"

اسی جگہ خیمہ زن ہونے کا حکم دیا گیا، کیوں کہ امام نے اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور والد گرامی حضرت علی علیہ السلام سے سن رکھا تھا کہ مقامِ شہادت کربلا ہوگا۔

دوسری محرم الحرام کے اہم واقعات

اسی دن امام حسین علیہ السلام نے اہل کوفہ کو ایک خط تحریر فرمایا اور اپنے قابل اعتماد افراد کو اُن کے پاس روانہ کیا تاکہ اپنی آمد کی خبر دیں۔ یہ خط قیس بن مسہر کے حوالے کیا گیا، مگر کوفہ کے جابر اور ظالم حکام نے اس فدائی قاصد کو گرفتار کر کے شہید کر دیا۔

جب امام کو قیس کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے گریہ فرمایا اور یہ دعا کی: اللّهُمَّ اجْعَلْ لَنا وَلِشِیعَتِنا عِنْدَکَ مَنْزِلاً کَرِیماً، وَاجْمَعْ بَیْنَنا وَبَیْنَهُمْ فِی مُسْتَقَرٍّ مِنْ رَحْمَتِکَ، إِنَّکَ عَلی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ۔

"بار الٰہا! ہمارے لیے اور ہمارے شیعوں کے لیے اپنے ہاں ایک عزت والا مقام قرار دے، اور ہمیں ان کے ساتھ اپنی رحمت کے ٹھکانے میں جمع فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔"

اسی دن سن ۶۰۵ ہجری میں، مشہور زاہد و عالم شیخ ورّام بن ابی فراس کا حلہ میں انتقال ہوا۔ وہ تنبیہ الخواطر کے مصنف، بزرگانِ امامیہ میں سے، مالک اشتر کے اولاد اور سید ابن طاؤوس کے جدّ امجد تھے۔

علامہ سید ابن طاؤوس نے اپنی کتاب فلاح السائل میں لکھا ہے: "میرے جدّ شیخ ورام بن ابی فراس رضوان اللہ علیہ ایسے شخص تھے جن کی سیرت پر عمل کرنا قابلِ تقلید ہے۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ وفات کے بعد ان کے دہن میں ایک عقیق کی انگوٹھی رکھی جائے، جس پر ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسمائے مبارکہ کندہ ہوں۔"

ماخذ: فیض الاعلام و وقائع الایام – شیخ عباس قمی

روزشمار تاریخ اسلام – سید تقی واردی

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha