۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
یاران امام حسین

حوزہ / محترمہ سویرا بتول نے امام حسین علیہ السلام کے ایک مخلص ساتھی ابو ثمامہ الصائدی پر تحریر لکھی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، محترمہ سویرا بتول نے امام حسین علیہ السلام کے ایک مخلص ساتھی ابو ثمامہ الصائدی پر تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

ایام عزا ہر سال بھرپور جوش و جذبے اور عقیدت سے منایا جاتا ہے۔ہر پیرو جواں شیعہ سنی حتی ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان اپنے اپنے مخصوص انداز میں نواسہ رسول سبط پیغمبر (ص) کو خراجِ عقیدت پیش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس موقع پر معاشرے کے خواص،مفکر،دانشور اور محققین پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مختلف تواریخ کا مطالعہ کریں اور حق بات عام عوام الناس تک پہنچائیں۔

امسال دل الگ طریقہ سے رنجیدہ ہے۔امام عالی مقام علیہ السلام سے توسل کیا کہ آپ خود رہنمائی فرمائیں۔شاید یہ سبط پیغمبر (ص) کا احسان تھا کہ خیال آیا کہ امام کے باوفا اصحاب پہ تحقیق کرکے کچھ قلم بند کیا جائے۔یہ مکتب کی ادنی طالبہ کی حقیر سی کاوش ہے اور کوشش ہے کہ ان ایام میں قارئین کو امام عالی مقام کے باوفا اصحاب سے متعارف کرواؤں۔امام کے وہ ساتھی جو دشت نینوا میں شہید ہوئے ہم اُن سے بہت کم آشنا ہیں۔ہم فقط اٹھارہ بنو ہاشم کے نام سے واقف ہیں اور شاید مشکل سےہی ہم سب اُن اٹھارہ کے نام جانتے ہوں۔امام کے باوفا اصحاب کا آغاز امام کے ایک مخلص ساتھی ابو ثمامہ الصائدی سے کرتے ہیں جو آل ہمدان میں سے تھے۔

آپ کا پورا نام عمروبن عبداللہ الصائدی تھا۔آپ قبیلہ ہمدان کے بہادروں،امام علی علیہ السلام کے جانثار شیعوں اور تابعین میں سے تھے۔آپ تمام جنگوں میں مولائے کائنات کے ہمراہ رہے اور بعد از شہادت امام حسن مجتبی علیہ السلام کا ساتھ دیا۔جس وقت امیر شام کی موت ہوئی آپ کوفہ میں رہتے تھے۔امیر شام کی موت کی خبر سارے کوفہ میں پھیل گئی تو کوفہ کے تمام شیعہ سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں جمع ہوئے ان میں آپ علیہ السلام بھی شامل تھے۔سب نے مل کر امام عالی مقام علیہ السلام کے نام خطوط لکھے جس کی بنإ پر سفیر حسین مسلم بن عقیل کوفہ تشریف لائے۔

ارشاد میں شیخ مفید لکھتے ہیں کہ ابو ثمامہ حضرت مسلم کے لیے اسلحہ اور دیگر جنگی سامان مہیا کرتے تھےآپ علیہ السلام نے اس سلسلے میں بہت کوششیں کیں نیز جناب مسلم کے لیے لایا جانے والا مال بھی آپ ہی کے پاس جمع ہوتا تھا آپ کو اسلحہ خریدنے میں بہت مہارت حاصل تھی۔

کامل میں ابن تاثیر سے مروی ہے کہ ابن زیاد جب کوفہ میں داخل ہوا اور حضرت مسلم کے ساتھیوں نے اس کے خلاف قیام کیا تو جناب مسلم علیہ السلام نے اپنے لشکر کا چوتھا حصہ ابو ثمامہ کی قیادت میں ابن زیاد کی طرف روانہ کیا۔انہوں نے عبیداللہ بن زیاد کے محل کا محاصرہ کیا۔ابو ثمامہ ثابت قدم رہے۔پھر جب لوگوں نے جناب مسلم ابن عقیل علیہ السلام کا ساتھ چھوڑا تو آپ علیہ السلام کہیں روپوش ہو گئے۔ابن زیاد ملعون نے آپ کو کافی تلاش کیا۔لیکن آپ علیہ السلام چھپ چھپا کرامام عالی مقام علیہ السلام کی طرف روانہ ہو گئے۔ جناب نافع بن ہلال جملی بھی آپ کے ہمراہ تھے چنانچہ ان دونوں نے راستے میں امام علیہ السلام کے قافلے کو پالیااور اس کے ساتھ ہو گئے۔

ابو مخنف نے روایت کیاہےکہ جب ابو ثمامہ نےروز عاشورہ دیکھا کہ سورج زوال کے مقام پر آگیاہے اور جنگ میں بھی نہیں رکی تو آپ علیہ السلام نے امام عالی مقام علیہ السلام کی خدمت میں آکر عرض کیا: یا ابا عبداللہ میری جان آپ پہ نثار! میرے دیکھنے کے مطابق یہ لوگ آپ کو شہید کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔مگر خدا کی قسم جب تک میں زندہ ہوں انہیں آپ علیہ السلام تک پہنچنے نہیں دوں گا۔میں چاہتا ہوں کہ یہ آخری نماز آپ کی اقتدإ میں ادا کروں جس کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ابو ثمامہ کی بات سن کر امام عالی مقام علیہ السلام نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: تونے نماز کو یاد رکھا خدا تجھے نمازیوں اور اپنا ذکر کرنے کرنے والوں میں سے قرار دے۔ہاں یہ نماز کا اول وقت ہے۔اس کے بعد امام نے فرمایا:

ان لوگوں سے کہو کہ کچھ دیر کے لیے جنگ روکیں تاکہ ہم نماز ادا کر لیں۔چنانچہ جب لشکر حسینی سے جنگ روکنے کی استدعا کی حصین بن تمیم لعنتی کہنے لگا کہ حسین علیہ السلام کی نماز قبول نہ ہوگی۔

یہ سن کرحبیب ابن مظاہر نے باواز بلند کہا: یا ابن الخمارہ! تیری نماز قبول ہوگی اور رسول خدا کے فرزند کی نماز قبول نہ ہوگی؟ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں نے اسے سخت جواب دیا۔اس گفتگو کیوجہ سے شدید جنگ ہوئی جس میں جناب حبیب ابن مظاہر شہید ہوئے۔ راوی کہتا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نماز کی امامت کرواچکے تو ابو ثمامہ نے امام کی خدمت میں عرض کی:

اے ابا عبداللہ! میں چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ پہ قربان ہوکر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جاؤں لیکن مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ آپ علیہ السلام کو اور آپ علیہ السلام کے اہل بیت کو تنہا چھوڑ دوں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ابا ثمامہ! قدم بڑھاؤ عنقریب ہم بھی تمہارے ساتھ ملحق ہوجائیں گے۔

ابو ثمامہ سیلاب کی موجوں اور خطرناک شیر کی طرح دشمن کے لشکر پر حملہ آور ہوئے۔آپ علیہ السلام نے لشکریزید کے دائیں اور بائیں حملہ کیا اور کئی دشمنوں کو واصل جہنم کیا جس کی وجہ سے شدید زخمی ہوگٸے۔آپ کے چچا زاد بھائی قیس بن عبداللہ صائدی نے جو کہ آپ علیہ السلام کا دشمن تھا، آپ کو شہید کیا۔حضرت ابو ثمامہ صائدی کی شہادت جناب حر علیہ السلام کی شہادت کے بعد ہوئی۔ امام زمانہؑ سے منسوب زیارت ناحیه مقدسہ میں انہیں ان الفاظ سے یاد کیا گیا ہے: *السلام علی ابی ثمامة عمر بن عبدالله الصائدی* یہ سلام زیارتِ رجبیہ میں بھی کچھ اختلاف کے ساتھ نقل ہوا ہے۔

ہمارا درود و سلام ہو

فرزند زہرا کے باوفا ساتھی

ابو ثمامہ الصائدی پر ۔۔۔

جنہوں نے اپنی جان

فرزند رسول پر قربان کی

ہمارا سلام ہو اے قبیلہ ہمدان کے شیردل شجاع دلاور پر

ہمارا سلام ہو علی مرتضی (ع) کےاکابر صحابی پر

ہمارا سلام ہو باوفا ساتھی ابو ثمامہ پر۔۔۔

حوالہ جات :

(شجاعان کربلا )

آیت اللہ شیخ ذبیح اللہ محلاتی

مترجم مولانا ذولفقار علی سعیدی

(ابصار العین فی انصار الحسین)

تالیف الشیخ محمد بن طاہر سماوی

مترجم مولانا سید عدنان نقوی

تبصرہ ارسال

You are replying to: .