حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجتالاسلام والمسلمین سید حمید میر باقری نے گذشتہ شب حرم حضرت معصومہؑ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سورۂ توبہ کی آیات ۲۳ اور ۲۴ مسلمانوں اور مومنوں کے درمیان ایک بہت اہم مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بعض لوگ مسلمان تو ہو چکے تھے، مگر ایمان ابھی ان کے دل کی گہرائی تک نہیں پہنچا تھا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ مسلمانوں کے والد یا خاندان کے دیگر افراد دشمن کے لشکر میں ہوتے تھے۔ اور مکہ کے رہنے والوں کا ذریعہ معاش زراعت نہیں بلکہ تجارت تھا، جو مشرک زائرین کے ذریعے چلتی تھی۔
حجت الاسلام میرباقری نے مزید بتایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم پر حضرت علی علیہ السلام نے اعلان کیا کہ مشرکین کو مسجد الحرام میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، تو مکہ کے کچھ لوگ پریشان ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مشرکین نہ آئے تو ہمارا کاروبار ختم ہو جائے گا۔ اسی وقت سورہ توبہ کی آیت ۲۴ نازل ہوئی، جس میں کہا گیا کہ اگر تمہیں اپنے بیٹے، باپ، بھائی، بیویاں، خاندان، مال، کاروبار اور گھر اللہ اور اُس کے رسول سے زیادہ عزیز ہوں، تو اللہ کے عذاب کا انتظار کرو۔
حرم مطہر کے اس مقرر نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن یہ نہیں کہہ رہا کہ انسان کو ان رشتوں یا چیزوں سے تعلق نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے زیادہ اہم نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ والدین، اولاد، بیوی یا تجارت سے محبت کرنا خدا پرستی کے خلاف نہیں، جب تک کہ خدا کی محبت سب سے مقدم ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ آیت ہمیں یہ سمجھانا چاہتی ہے کہ تاریخ کے نازک اور اہم لمحات میں شیطان انسان کو ان آٹھ چیزوں کو اللہ اور رسول پر ترجیح دینے پر آمادہ کرتا ہے۔
حجت الاسلام میرباقری نے یاد دلایا کہ اگر انسان کی زندگی میں خدا کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہو، اور اولاد و مال اس کے بعد ہوں، تو انسان کبھی جھوٹ، فریب یا دھوکہ دہی کا سہارا نہیں لے گا۔ کیونکہ ان تمام برائیوں کی جڑ دنیا سے بے جا لگاؤ اور مادّہ پرستی ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی کے نزدیک اولاد کی آسائش اور آرام سب سے اہم ہو جائے، تو وہ حرام کمائی تک کو بھی اپنا لے گا۔ لیکن اگر اللہ کی رضا سب سے زیادہ اہم ہو، تو وہ کبھی حرام لقمہ اپنے دسترخوان پر نہ لائے گا۔
میرباقری نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی خاتون کے لیے خدا کی رضا اہم ہو، تو وہ صرف شوہر کی بات مان کر بے حجابی یا گناہوں کی طرف نہیں جائے گی، بلکہ شوہر کے ناپسندیدہ مطالبات کو خدا کی نافرمانی سمجھ کر مسترد کر دے گی۔
آخر میں انہوں نے زور دے کر کہا: کوفہ کے بہت سے لوگوں نے امام حسینؑ کو خط لکھ کر بلایا تھا، لیکن جب وقت آیا، تو اُنہوں نے امام کو تنہا چھوڑ دیا، کیونکہ اُنہیں اپنی اولاد، خاندان، مال، تجارت اور گھر کی محبت نے حق کے ساتھ کھڑے ہونے سے روک دیا۔ وہ امامؑ کے ساتھ شہادت کو گوارا نہ کر سکے اور تاریخ کے صحیح اور سچے راستے پر قائم نہ رہ سکے۔









آپ کا تبصرہ