حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کرمان کے حسینیہ ثاراللہ میں درسِ اخلاق کے سلسلہ وار جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انسان کے لیے سب سے سخت مرحلہ دنیا سے دوسرے عالم میں انتقال کا ابتدائی لمحہ ہے، جس کی ابتدا قبر سے ہوتی ہے۔ اگر انسان چاہتا ہے کہ اس موقع پر عذاب اور تاریکی سے دوچار نہ ہو تو ضروری ہے کہ گناہوں سے پرہیز کرے اور دینی اصولوں پر عمل کرے۔
انہوں نے جسمانی اور روحانی بیماریوں کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ جسمانی امراض کبھی اندرونی اور کبھی بیرونی عوامل جیسے جراثیم یا وائرس کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ بعض آسانی سے ٹھیک ہو جاتے ہیں، مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کے سامنے جدید ترین علم بھی عاجز ہے۔ اسی طرح روحانی بیماریوں کی بھی مختلف سطحیں ہیں؛ کچھ ہلکی، کچھ درمیانی اور کچھ اتنی خطرناک کہ انسان کی زندگی کو تباہ کر دیتی ہیں۔
امام باقر علیہ السلام کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: "کوئی علم، طلبِ سلامتی جیسا نہیں، کوئی سلامتی، دل کی سلامتی جیسی نہیں اور کوئی معرفت، خودشناسی جیسی نہیں۔" دل اگر سالم ہو تو اعمال اور فیصلے بھی درست ہوں گے، لیکن بیمار دل گناہوں کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔
آیہ کریمہ «وَ ما خَلَقتُ الجِنَّ و الإنسَ إلّا لِیَعبُدون» (الذاریات: 56) کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عبادت صرف نماز اور روزہ کا نام نہیں، بلکہ خدا کے سامنے مکمل تسلیم ہونا ہے۔ اسی لیے بعض سادہ دل اور غیر تعلیم یافتہ لوگ روحانی طور پر بہت زیادہ پاکیزہ ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے دل کبر و حسد سے خالی ہوتے ہیں۔
حجۃ الاسلام علیدادی سلیمانی نے مرحوم آیت اللہ مبارکی اصفہانی سے منقول امام رضا علیہ السلام کی عنایت پر مبنی ایک واقعہ بھی بیان کیا اور کہا کہ یہ قصہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کے مقربین سے تعلق رکھنے والے انسان، صداقت اور ایمان میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔
انہوں نے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ روحانی بیماریوں کا علاج صرف اخلاص، نیک اخلاق اور خدا کے ساتھ مضبوط رشتہ ہے۔ اگر یہ رشتہ درست ہو جائے تو کوئی روحانی بیماری انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان بیماریوں کے اثرات سے محفوظ رکھے۔









آپ کا تبصرہ