حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس خبرگان رہبری میں کرمان کے عوام کے نمائندہ آیت اللہ شیخ بہائی نے حوزہ علمیہ خواہران کرمان کو درسِ اخلاق کے دوران نہج البلاغہ کے خط نمبر ۳۱ کے مفاہیم کو بیان کرتے ہوئے دنیاوی اور اخروی زاویہ نگاہ کے فرق پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے خط کے آغاز میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے الفاظ "من الوالد الفان" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حضرت نے اس خط میں دنیا کی فانی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے موعظہ اور بیداری کی نصیحت کی ہے۔ یہ نقطۂ نظر تب سامنے آتا ہے جب انسان دنیا کو آخرت کی تمہید سمجھے۔
مجلس خبرگان کے رکن نے کہا: پہلی نگاہ جو صرف دنیاوی زندگی پر مرکوز ہے، اس کا مقصد زندگی کو خوشگوار بنانا اور رفاہ و آسائش کو بڑھانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: نصیحتیں محبت آمیز تعلق اور تلخی سے پرہیز کے گرد گھومتی ہیں لیکن جب دنیا و آخرت کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو نصیحت کا لہجہ اور مضمون بالکل بدل جاتا ہے۔

آیت اللہ شیخ بہائی نے کہا: ایک باپ جو اپنے آپ کو آخرت کے قریب سمجھتا ہے، اپنے جوان بیٹے کو نصیحت کا انداز بھی مختلف رکھتا ہے۔ اسی طرح حضرت علی علیہ السلام اس خط میں خود کو ایک فانی باپ، زمانے کے سامنے تسلیم شدہ اور مرنے والوں کے ساتھ رہنے والا قرار دیتے ہیں تاکہ اخروی نظر کی گہرائی کو آشکار کریں۔
انہوں نے کہا: اس کے بعد حضرت انسان کو اس زاویہ نگاہ سے بیان کرتے ہیں اور اسے "عبد دنیا"، "تاجر الغرور"، "قرین المنایا" اور "اسیر الموت" کہتے ہیں۔ یہ تعبیریں اسی وقت مفہوم پاتی ہیں جب زندگی کو صرف اسی دنیا تک محدود نہ دیکھا جائے۔
اس استادِ اخلاق نے مزید کہا: حضرت علی علیہ السلام اس خط کے آغاز میں اپنے مقصد کو یوں بیان کرتے ہیں کہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ دنیا مجھ سے منہ موڑ چکی ہے، زمانہ مجھ پر ہجوم کر چکا ہے اور آخرت کی اقبال میرے سامنے ہے۔ یہی بینش اور فکر انسان کو اپنی اصلاح اور آخرت کی فکر میں لگاتی ہے۔









آپ کا تبصرہ