حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حمید حسام کی کتاب "وقتی مہتاب گم شد" سے ماخوذ یہ واقعہ اُس ماں کے یقین اور صلابت کی تصویر ہے جو بیٹے کی شہادت کی خبر سنتے وقت بھی قرآن سے تسکین پاتی ہے اور ایمان کے چراغ سے صبر کا راستہ روشن کرتی ہی ۔
علی خوش لفظ بیان کرتے ہیں: "میری ماں قرآن پڑھ رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ میں نے احتیاط سے کہا کہ جعفر کو معمولی زخم لگا ہے اور اسے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ماں نے پرسکون لہجے میں میری آنکھوں میں دیکھا اور کہا: جعفر شہید ہو گیا۔"
میں نے گھبرا کر پوچھا: "کس نے کہا؟"
ماں نے مسکرا کر جواب دیا: "قرآن نے!"
پھر اُس نے وہ آیت تلاوت کی: «وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللّٰهِ أَمْوَاتًا...»
(اور جو لوگ راہِ خدا میں قتل کیے گئے، انہیں مردہ مت سمجھو۔)
ماں نے کہا: "خدا کہہ رہا ہے وہ شہید ہوا ہے، اور تُو کہتا ہے نہیں؟"
بیٹے نے لکھا کہ: "ماں کے ایمان نے میرے دل کو سکون دیا، مگر میں یہ کہنے کی ہمت نہ کر سکا کہ تمہارے بیٹے کا جسم نہیں ملا۔"
یہ واقعہ نہ صرف ایک شہید کی والدہ کے ایمان و استقامت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس حقیقت کی بھی کہ قرآن پر یقین رکھنے والا دل، مصیبت کے وقت بھی لرزتا نہیں۔
منبع: حمید حسام، وقتی مھتاب گم شد، ص 642۔









آپ کا تبصرہ