ہفتہ 1 نومبر 2025 - 15:39
فکری اور ادراکی جنگ میں دشمن میڈیا کا مشن / اس جنگ کو فریب کے ذریعے نہیں جیتا جا سکتا!

حوزہ / میڈیا ماہرین اور محققین نے فکری اور ادراکی جنگ میں دشمن کے اہداف کی نشاندہی کرتے ہوئے اس حساس اور تقدیر ساز میدان میں دشمن کی طرف مائل میڈیا کے اہم ترین اہداف کو بیان کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فکری اور ادراکی جنگ میں اصل معرکہ اسلحے یا سرزمین پر نہیں بلکہ عوام کے ادراک اور اعتماد پر ہوتا ہے۔ اس میدان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بیان کی جانے والی روایت حقیقت سے دور ہو جائے تو بہترین ذرائع کے باوجود بھی سماج کے ذہنوں پر اثر نہیں ڈالا جا سکتا لہٰذا فکری اور ادراکی جنگ میں دشمن کا مقصد حقیقت کو چھپانا نہیں بلکہ اسے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ایک نامکمل اور مخصوص رخ والی تصویر پیش کرنا ہے۔

میڈیا ایکٹویسٹ میثم رمضان علی کا کہنا ہے کہ اس میدان میں دفاع تکذیب یا سنسر کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ مکمل اور قابل اعتماد حقیقت کی تعمیرِ نو کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ عوامی اقناع کا بنیاد آگاہی اور روشنگری ہے جس کی جڑیں معصومین علیہم السلام کی تعلیمات میں موجود ہیں۔ چنانچہ امامین انقلاب کی سیرت بھی تحریکِ انقلاب آغاز سے آج تک اسی اصول پر قائم رہی ہے۔

رپورٹنگ میں امانت داری کی ضرورت

انہوں نے مزید کہا: اسلام ناب محمدی (ص) میڈیا کو صرف تشہیر کا وسیلہ نہیں سمجھتا بلکہ اسے ایک امانت قرار دیتا ہے۔ اس منطق کے مطابق عوامی اعتماد صرف سچ بولنے سے نہیں بلکہ حقیقت کے امانت دارانہ بیان سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک امانت دار میڈیا وہ ہے جو حقیقت تلخ ہونے کے باوجود بھی اعتماد پیدا کرتا ہے نہ کہ اضطراب۔

انہوں نے کہا: حقیقی قائل ہونا، سمجھ داری کے ساتھ سچی بات کہنے سے پیدا ہوتا ہے، یعنی ایسا بیان جو حقیقت بھی واضح کرے اور معاشرتی مصلحتوں کا بھی تحفظ کرے۔ گزشتہ برسوں میں ہمارے بعض میڈیا حلقے «پوشیدگی پر مبنی بحران انتظام» کے جال میں پھنس گئے، جہاں خیال کیا جاتا ہے کہ نامکمل بیانیے، منتخب اعداد و شمار اور سطحی نفسیاتی حربے اعتماد پیدا کر سکتے ہیں۔ جبکہ تجربہ اس کے برعکس ہے کہ ایسے طریقے اعتماد کو ختم کر دیتے ہیں۔

فکری اور ادراکی جنگ میں اقناع کے میدان سے غفلت نہ ہو

اس میڈیا محقق نے مزید کہا: ماہرین بارہا متوجہ کر چکے ہیں کہ "جزوی بیانیہ دشمن کے بیانیہ کو مکمل کرتا ہے"۔ جب میڈیا کی قوت روشنگری کے بجائے عددسازی اور ظاہری نمائش میں صرف ہو جائے تو وہ اقناع کا میدان دوسروں کے لیے خالی چھوڑ دیتی ہے۔

انہوں نے کہا: عوامی اعتماد کی بحالی صرف پروپیگنڈہ اور تشہیری انداز سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے روایت میں دیانت داری، سچے تجزیے اور مکمل انسانی بیانیے کی ضرورت ہے۔ شہید سید حسن نصر اللہ کا مکتب اسی راستے کی ایک واضح مثال ہے: سچا، تجزیاتی اور انسان کی عزت پر مبنی بیان۔

انہوں نے مزید کہا: فکری اور ادراکی جنگ کو فریب کے ذریعے نہیں جیتا جا سکتا بلکہ ایک مربوط، گہری اور قابلِ یقین حقیقت کے ذریعے فتح ممکن ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha