حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سیوان، بہار/ بھیک پور میں منعقدہ دین و زندگی کلاسز کے موقع پر مولانا سید شمع محمد رضوی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں علوم، ہنر اور فنون کا استعمال نہایت ضروری ہے، کیونکہ انہی کے ذریعے انسانیت کی خدمت ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ علم تو حاصل کرتے ہیں مگر اس سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، اور ایسے لوگ علم کے اصل مقصد کو کھو دیتے ہیں۔ وہ علم جس سے انسانیت کی خدمت ہونی چاہیے، جب برائی کے لیے استعمال ہوتا ہے تو وہ علم انسان پر لعنت بن جاتا ہے۔
مولانا نے مزید کہا کہ بعض لوگ علم اس نیت سے حاصل کرتے ہیں کہ وہ دوسروں کو نقصان پہنچائیں اور معاشرے میں حیوانیت کو فروغ دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں تو بچے گھروں میں آرام سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، مگر دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں جہاں مظلوم ظالم کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ علومِ عقلی اس لیے حاصل کیے جاتے ہیں کہ انسان کی ترقی کا راستہ کھلا رہے، مگر آج کچھ خبیث عناصر نے فتنہ و فساد کے ذریعے پوری دنیا کو جلا کر رکھ دیا ہے۔
مولانا نے کہا کہ ماضی میں جب لڑائیاں ہوتی تھیں تو عورتوں اور بچوں کا خیال رکھا جاتا تھا، مگر آج کے دور میں یہ تمام اصول ختم ہو چکے ہیں۔ بم، ٹینک اور ہتھیار ایسے عام ہو گئے ہیں کہ جیسے یہ کوئی کھیل یا خوشی کا سامان ہوں۔ دنیا کے طاقتور ممالک کی خاموشی نہایت افسوسناک اور تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلِ علم آگے آئیں اور ایک خود مختار و مضبوط انجمن تشکیل دیں، جو مرکز سے منسلک ہو اور جس کے ذریعے مختلف شعبہ جات پر گہری نظر رکھی جا سکے۔ ایسے باہمت لوگ سامنے آئیں جو حق پرستی کے جذبے سے کام لیں، ظلم و جرائم کے خلاف آواز اٹھائیں، اور مجرموں کو بے نقاب کریں تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ امن و استحکام کے دشمن کون ہیں۔
مولانا نے کہا کہ جو لوگ محاذِ جنگ پر ہیں وہ دراصل غفلت میں مبتلا ہیں۔ اگر انہیں صحیح تعلیم دی جائے تو ان میں سدھرنے کی گنجائش ہے۔ ان کے ساتھ فکری و علمی محنت کی جائے تاکہ وہ باطل کے خلاف ڈٹ کر بول سکیں اور مظلوموں کے حق میں آواز بلند کریں۔
اہلِ فکر و نظر، علمی اور اخلاقی میدان میں معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنا کردار ادا کریں
دین و زندگی کلاسز کے سلسلے میں مولانا سید شکیل احمد رضوی نے کہا کہ میں دنیا کے تمام اہلِ فکر و نظر کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ علمی اور اخلاقی میدان میں معاشرے کی اصلاح کے لیے کردار ادا کریں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح مریض ڈاکٹر کے پاس جا کر علاج حاصل کرتا ہے، اسی طرح معاشرتی امراض کے علاج کے لیے علما، دانشوروں اور باشعور افراد کو آگے آنا چاہیے۔
مولانا نے کہا کہ اگر اہلِ علم خاموش رہے تو معاشرہ سنگین خطرات سے دوچار ہو جائے گا۔ آج کے زمانے میں یہ پہچاننا مشکل ہو گیا ہے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون۔ اگر انصاف کے تقاضوں کو نظرانداز کیا گیا تو جھوٹی عدالتیں اور من گھڑت الزامات قومی یکجہتی اور آئینی مساوات کے لیے زہرِ قاتل بن جائیں گے۔
دینی شعائر کی پامالی، معاشرتی زوال کی طرف اشارہ
مولانا محمد رضا معروفی نے دینی شعور اور مدارسِ دینیہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج دینی شعار اور اصطلاحات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس سے قوم پستی کی طرف جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں اور چاہتے ہیں کہ اچھے لوگ دبے رہیں اور حق کا بول بالا نہ ہو۔ حق کی سربلندی تبھی ممکن ہے جب انسان خود مختار ہو اور اس کا تعلق ائمہ معصومینؑ، اولیائے خدا اور ربِ کریم سے مضبوط ہو۔
مولانا معروفی نے مزید کہا کہ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ لوگ مذہب کے نام پر فتنہ و فساد پھیلا رہے ہیں، جبکہ کوئی بھی مذہب خونریزی اور نفرت کی اجازت نہیں دیتا۔ تمام مذاہب انسانیت، محبت، اور اتحاد کا پیغام دیتے ہیں۔ جو لوگ نفرت پھیلاتے ہیں وہ اپنے مذہب کے سچے پیروکار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جو لوگ خود کو مصلح سمجھتے ہیں وہ میدان میں آئیں، خود بیدار ہوں اور دوسروں کو بھی بیدار کریں تاکہ معاشرے میں امن، اتحاد اور رواداری کو فروغ ملے۔
مولانا نے انتباہ دیا کہ اگر معاشرہ اسی طرح بے حسی میں مبتلا رہا تو آئندہ کے لیے یہ ایک سنگین خطرہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، شدت پسندی، اور عبادت گاہوں پر حملے نہایت تشویشناک ہیں، اور ہر سنجیدہ شہری کو ان کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔









آپ کا تبصرہ