تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی| بہار اسمبلی انتخابات نے ایک بارپھر یہ ثابت کردیا کہ بی جے پی کا تنظیمی ڈھانچہ ،سیاسی حکمت عملی اور رضاکارانہ کیڈر بہت وسیع اور مضبوط ہے ۔اس فتح کا کئی لحاظ سے جائزہ لیاجاسکتاہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ بی جے پی عوام کی نبض پہچاننے میں بلا کی مہارت رکھتی ہے ۔اس میں مذہب کو ایک موثر عنصر کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ بی جے پی نےاپنا سیاسی محور مذہب کو ہی قراردیاہے ۔ان کے سیاسی نظریے پر مذہبی تقسیم غالب ہے ۔اسی نظریے نے انہیں سماج میں نفوذ بخشااور مذہب کے محور پر تمام ذاتیں ان کے اردگرد گھوم رہی ہیں ۔’عظیم اتحاد‘ نہ تو سیاسی نظریے پر لوگوںکو متحد کرسکااور نہ اپنے ترقیاتی عزائم کو عوام کے درمیان پہونچاسکا۔عظیم اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے درمیان مختلف مسائل پر اختلاف رائے رہاجس نے رائے دہندگان کو بھی متاثر کیا۔اگر اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہی آپس میں اختلاف کا شکار ہوں تو رائے دہندگان کو متحد کیسے کیاجاسکتاہے ؟اس تقسیم اور انتشار نے انہیں دن میں تارے دکھلادئیے ۔کانگریس تو جیسے دن بہ دن اپنا اثر کھوتی جارہی ہے ۔ان کے پاس راہل اور پرینکاگاندھی کے علاوہ کوئی تیسرا موثر لیڈر نہیں ہے ۔آخر ایک قومی سیاسی جماعت دو رہنمائوں پر کیسے منحصر رہ سکتی ہے ۔یا پھر نریندر مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسی کرشماتی قیادت موجود ہوجو ایک تقریر میں پورا سیاسی بیانیہ بدلنے کی طاقت رکھتے ہوں۔ایسی موثر قیادت کے بغیر بی جے پی سے سیاسی اور نظریاتی پنجہ آزمائی ناممکن ہے ۔
بہار میں دو سیاسی جماعتیں مرکزیت رکھتی ہیں ۔ایک تیجسوی یادو کی آرجے ڈی او ر دوسرے نتیش کمار کی آرایل ڈی ۔اس مرکزیت کا خیال تیجسوی یادو کو بہر حال رکھناتھاورنہ ان کی حیثیت زیر سوال آجاتی ۔اس لئے تیجسوی یادو نے ہر موقع پر اپنی برتری ثابت کرکے دیگر متحد جماعتوں کی حیثیت ثانوی ظاہر کرنے کی کوشش کی ۔اگر قیادت کے درمیان فکری اور سیاسی سطح پر اتفاق نہ ہوتو جماعتوں کا اتحاد کامیاب نہیں ہوسکتا۔ان کے درمیان اتفاق رائے اور رابطے کا فقدان تھاجس کا فائدہ بی جے پی نے بخوبی اٹھایا۔تیجسوی یادو نے اتحاد کے دیگر شرکاء کو برابر مقام نہیں دیااور خود کو کلیدی رہنما ظاہر کرنے کی کوشش کی ۔چونکہ انہیں بہار کے وزیر اعلیٰ عہدے کا امیدوار اعلان کیاگیاتھالہذا وہ اسی خمار میں رہے ۔عظیم اتحاد کے انتخابی منثور میں بھی تیجسوی یادو کو مرکزیت دی گئی اور اتحاد کے دیگر رہنمائوں کو ان کے سامنے بونا ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ،جس کا خمیازہ اتحاد کو بھگتناپڑا۔
انتخابی تاریخوں کے اعلان سے پہلے ہی عظیم اتحاد کا سیاسی انتشار طشت از بام ہوچکاتھا،اس کے باوجود بی جے پی کی منافرانہ سیاست سے اکتائے ہوئے لوگ ان سے فتح کی توقع لگائے بیٹھے تھے ۔ان کے درمیان آخر تک نشستوں کی تقسیم پر اختلاف موجود رہا۔جن نشستوں پر انہوں نے اپنے امیدوار کھڑے کئے ،محروم امیدواروں نے انہیں حمایت دینے سے گریز کیا۔بعض حلقوں میں دو متحد جماعتوں کے امیدوار میدان میں اتر آئے ۔اس کا نقصان یہ ہواکہ عظیم اتحاد کا ووٹ تقسیم ہوااور رائے دہندگان پر منفی اثر پڑا۔دوسرے یہ کہ آرجے ڈی انتخابی ماحول کا اندازہ نہیں لگاسکی ۔مساوات اور آزادیٔ خیال کے جو دعوے انہوں نے کئے ان میں حقیقت نہیں تھی ۔تیجسوی یادو نے ذات پات کو زیادہ اہمیت دی اوران کے نمائندوں میں ’یادو برادری ‘ کے افراد کی کثرت تھی ،جس کا رائے دہندگان پر مثبت اثر نہیں ہوا۔بی جے پی نے بھی اس مسئلے پر عوام کو متنبہ کیااور عظیم اتحاد کے دعوئوں کوفرضی ثابت کرنے کی کوشش کی ،جس میں انہیں کامیابی ملی ۔’یادوکارڈ‘نے مزعومہ چھوٹی ذاتوں اور پسماندہ طبقات کو این ڈی اے کی جھولی میں ڈال دیااور اس طرح عظیم اتحاد کو اس محاذ پربھی ہار کا سامنا کرناپڑا۔عظیم اتحاد ،خاص طورپر آرجے ڈی بدلتے ہوئے سماجی رویوں کو بھانپ نہیں سکی اور ان کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔
عظیم اتحاد میں سب سے کمزور جماعت کانگریس تھی ۔اس کا اندازہ انتخابی نتائج کے بعد اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کو بھی یقیناًہواہوگا۔آئندہ انتخابات میں ’عظیم اتحاد‘ قائم رہتاہے یا اس پر ضرب پڑتی ہے ،یہ بھی جلد ظاہر ہوجائے گا۔کیونکہ اگرکانگریس اس قدر کمزور ی کا مظاہرہ کرتی رہے گی تو پھر علاقائی جماعتیں اس کے ساتھ اتحاد کیوں کریں گی؟ کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ نہایت کمزور ہے جس پر راہل اور پرینکا گاندھی کو توجہ دینے کی ضرور ت ہے ۔بغیر مضبوط تنظیمی ڈھانچہ کے انتخابات میں کامیابی ممکن نہیں ہے ۔خاص طورپر ہندی ریاستوں میں کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ نہایت کمزور ہے ۔جن رہنمائوں پر انہوں نے تکیہ کیاہواہے ان کا عوام کے درمیان کوئی اثر نہیں ۔صرف بہار ہی نہیں اترپردیش ،بنگال ،راجستھان اور مہاراشٹراجیسی بڑی ریاستوں میں کانگریس کا وجود خطرے سے دوچار ہے ۔اگر ملک کی بڑی ریاستوں میں اس کی نمائندگی کمزور ہے توپھر وہ اقتدار تک کیسے پہونچ سکتی ہے ؟اتحاد میں شامل علاقائی جماعتیں اپنے وجود کو خطرے میں ڈال کر کانگریس کو مضبوط نہیں کرسکتیں ،اس حقیقت کو انہیں باور کرنا ہوگا۔ایک مشکل یہ رہی کہ کانگریس نے جن رہنمائوں کو بہار کے انتخابی میدان میں اتاراان کاکوئی سیاسی قد نہیں تھا ۔بعض تو عوام کے درمیان کسی بھی سطح پر موثر نہیں تھے ۔کانگریس نے یا تو کمزور امیدواروں پر دائوں کھیلایا غیر مقبول افراد کو ٹکٹ دے کر خانہ پری کی کوشش کی۔اگر ان کے پاس مقبول عوامی رہنما نہیں ہیں تو اس بحرانی صورت حال پر انہیں غور کرناچاہیے ۔بغیر عوامی مقبولیت کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا پہاڑ کاٹ کر جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔یا تو آپ کے پاس ایسے کرشماتی لیڈر موجود ہوں جن کےجھوٹ بھی سہانے لگنے لگیں ۔’عظیم اتحاد ‘ کا ایک بڑامسئلہ ان کے درمیان موجود باغی لیڈر ہیں جو انہیں زیادہ نقصان پہونچارہے ہیں ۔خاص طورپر کانگریس کے درمیان باغیوں کا بڑا گروہ موجود ہے جو قیادت کے بھی فیصلوں کو بھی قبول نہیں کرتا۔اسکا نقصان تنظیمی ڈھانچہ کو بھی پہونچتاہے اور عوام بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔
راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن کی شفافیت پر سوال اٹھائے اور بی جے پی پر ’ووٹ چوری ‘ کے الزامات عائد کرکے انتخابی ماحول کو گرمانے کی کوشش کی ۔راہل کے الزامات کی حقیقت خواہ کچھ بھی ہومگر وہ عوام کو متاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔اس کی بنیادی وجہ ان کا کمزور تنظیمی ڈھانچہ ہے جس نے راہل کی سیاسی حکمت عملی کو عوام کے درمیان تحریکی شکل نہیں دی ۔عظیم اتحاد نے ’’ووٹ چوری ‘ کے علاوہ تعلیم ،مہنگائی،صحت اور روزگار کے مسائل کروفر کے ساتھ اٹھائے مگر عوامی بیانیہ تشکیل دینے میں ناکام رہے ۔دوسری طرف این ڈی اے نے ترقیاتی منصوبے ،فلاحی اسکیموں اور سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعہ عوامی بیانیہ تشکیل دیاجس نے عظیم اتحاد کے اہم مسائل کو پردے کے پیچھے دھکیل دیا۔بی جے پی کی کامیابی میں نئی ووٹر لسٹ کی تشکیل نے کتنا اہم کردار اداکیااس کاجائزہ لینابھی ضروری ہے ۔ایس آئی آر کا دائرہ بڑھتاجارہاہے اور اب اس کی زد میں پوراہندوستان ہے لہذا اس بارے میں بھی سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہیے ۔شکست کا ایک سبب عظیم اتحاد کے مقابلے دیگر سیاسی فریقوں کا ابھرنابھی ہے ۔انہوں نے بی جے پی کے روایتی ووٹ بینک میں سیندھ نہیں لگائی بلکہ عظیم اتحاد کے ووٹوں کی تقسیم کا سبب بنے ۔
عظیم اتحاد کی شکست کی بنیادی وجوہات سیاسی کشمکش،داخلی تضادات ،کمزور تنظیمی رابطہ ،غیر متوازن حکمت عملی اور ذات پات پر زیادہ انحصار کرناہے ۔انہوں نے متحد جماعتوں کو برابر اہمیت نہیں دی اور تیجسوی یادو کو مرکزیت دے کر دیگر جماعتوں کےرہنمائوں کو حاشیے پر دھکیل دیا ۔اس پر کانگریس کا کمزور تنظیمی ڈھانچہ ،عوامی مقبولیت سے عاری رہنمائوں پر انحصار اور نئے سیاسی فریقوں کی موجودگی نے عظیم اتحاد کی مشکلات بڑھادیں ۔بہرحال!بہار اسمبلی انتخابات میں نمایاں کامیابی پر بی جے پی کے ساتھ الیکشن کمیشن کو بھی مبارک باد پیش کرنا چاہیے۔









آپ کا تبصرہ