حوزہ نیوز ایجنسی I وحی الٰہی "جو فطرتِ انسانی کی زبان سے ہم آہنگ ہے" صاف طور پر یہ فیصلہ سناتی ہے کہ عالم، جاہل کے برابر نہیں ہو سکتا: «هَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ» “کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟” (زمر/۹)
اصل عبرت اس میں ہے کہ علم رکھنے والا انسان دو راستوں میں سے کسی ایک پر چڑھ سکتا ہے:
یا تو قوسِ صعود میں بلند ہو کر سالکانِ راہ کی صفات اختیار کرے «وَ سِلاحُهُ البُکاء»" (اقبال الاعمال/ ۷۱۰) جن کا ہتھیار گریہ ہے، جو دوزخ کے خوف، جدائی کے درد اور اللہ کی ہیبت کے سبب آنسو بہاتے ہیں" جیسا کہ فرمایا: «إِنَّمَا یَخْشَی اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ» “اللہ سے تو صرف اُس کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں” (فاطر/۲۸) اور یا پھر قوسِ نزول میں اتر کر حیوانیت کے درجے بلکہ اس سے بھی بدتر مقام تک جا سکتا ہے، جیسا کہ قرآن نے کہا: «فَمَثَلُهُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ أَوْ تَتْرُکْهُ یَلْهَث» “اس کی مثال اس کتے کی سی ہے کہ اگر اس پر حملہ کرو تب بھی ہانپتا رہے، چھوڑ دو تب بھی ہانپتا رہے” (اعراف/۱۷۶)
اگرچہ عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے انسانوں اور جنّوں کے شیاطین سرگرم رہتے ہیں، لیکن عالم اور صاحبِ فکر کو بہکانے کے لیے خود ابلیس براہِ راست میدان میں اُترتا ہے۔
وہی ابلیس جس نے خود پرستى اور خواہش پرستی کی آگ میں اپنے چھ ہزار سالہ عبادات کو جلا ڈالا۔ ( ر.ک: سروش هدایت، ج ۱، ص )
اسی لیے سالکانِ علم و معرفت خاص طور پر شیطان کے نشانے پر رہتے ہیں، کیونکہ (زَلَّة العالِم، زَلَّة العالَم) "عَالِم کی لغزش، عَالَم کی لغزش ہوتی ہے"۔
ایسے ہلاکت خیز طوفانوں میں ایک مضبوط آواز پوری دنیا میں گونجتی ہے، جو اہلِ نجات کے لیے بشارت ہے : إنّما مَثَلُ أهلِ بیتی فِیکُمْ کَمَثَلِ سَفینةِ نُوحٍ مَنْ رَکِبَها نَجا و مَنْ تَخَلَّفَ عَنها غَرِقَ»“میری اہلِ بیت کی مثال نوح کی کشتی جیسی ہے؛ جو اس میں سوار ہو گیا نجات پا گیا، اور جو پیچھے رہ گیا غرق ہوا۔” (بحارالانوار، ج ۲۳، ص ۱۰۵)
اگرچہ اہلِ بیت علیہم السلام میں سے ہر ایک سے تمسک کرنا آیتِ کریمہ «فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ»(انعام/ ۹۰) “پس ان ہی کی ہدایت کی پیروی کرو” کا عملی مصداق ہے، لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے جدّ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو اہلِ ایمان کا روحانی اور علمی روزی رساں قرار دیا ہے: «لِأَنَّهُ یَمِیرُهُمْ الْعِلْمَ»“وہ مومنین کو علم عطا کرتے ہیں” (کافی، ج ۱، ص ۴۱۲) اور فرمایا: «إنَّهُ لَیسَ أحَدٌ عِندَهُ عِلمُ شَیءٍ إلاّ خَرَجَ مِن عِندِ أمیرِ المُؤمِنینَ علیهالسلام» “کسی کے پاس کوئی علم نہیں، مگر یہ کہ وہ امیرالمؤمنینؑ ہی کے در سے نکلا ہے” (کافی، ج ۱، ص ۳۹۹)
یہ دائمی بشارت اور صادقانہ فضیلت اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر سالکِ معرفت اپنے نفس کو تکاثر کے گرداب سے نکال کر سعادت کے چشمے تک پہنچانا چاہتا ہے، تو اسے بحرِ ولایت سے جڑ کر منارِ ایمان سے وابستہ ہونا ہوگا: «یَا علیُّ انتَ اَصلُ الدِّین وَ مَنَارُ الاِیمَان وَ غَایَةُ الهُدَی» “اے علی! آپ دین کی بنیاد، ایمان کا چراغ اور ہدایت کی آخری منزل ہیں۔” (بصائر الدرجات، ج ۱، ص ۳۱)
جو شخص اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے مسلسل مجاہدہ کرتا رہے، وہ آہستہ آہستہ ایسے مقام تک پہنچتا ہے جہاں آرام، راحت، خوش خبری اور جنت اس کا مقدر بنتی ہے: «إِنَّ اَلرَّوْحَ وَ اَلرَّاحَةَ وَ البِشرَ وَ البِشَارَة لِمَنْ اِئْتَمَّ بِعَلِیّ» “بیشک راحت، خوشی اور بشارت اُس کے لیے ہے جو علی کی اقتدا کرے۔” (بصائر الدرجات، ج ۱، ص ۵۳) اگر علم کا مسافر کوئی حقیقت سمجھ کر وحی اور اس کے مفسروں کے سامنے مزید عاجزی اور خاکساری اختیار کرے، تو دراصل وہ اپنے آپ کو معرفت اور حقیقت کے چشمے سے سیراب ہونے کے لیے آمادہ کر لیتا ہے۔
اور قرآن کی آیت «وَ سَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا» ‘اور اُنہیں اُن کا رب پاکیزہ مشروب پلائے گا’ (انسان/ ۲۱) سے مراد یہ ہے کہ انہیں اُن کے سردار، حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے وسیلے سے یہ سیرابی عطا ہوگی۔سَیِّدهُم عَلِیَّ بنَ اَبِی طَالِب علیهالسلام»(مناقب ابن شهر آشوب، ج ۲، ص ۱۶۲)
یہی خاکساری علم کے اندرونی راستے کی اصل بنیاد ہے۔اسی لیے سورۂ زمر میں، عالم کی برتری کا حکم دینے سے پہلے فرمایا گیا: «أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَ قَائِمًا یَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَ یَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ» “وہ شخص جو رات کے اوقات میں سجدہ و قیام میں لگا رہتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت چاہتا ہے…” (زمر/ ۹)
یعنی عالم کی برتری علم اور عملِ صالح کی ہم آہنگی سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ عالم جو سفینۂ ولایت سے وابستہ اور منارِ هدایت سے متصل ہو، وہی صحیح سلامت منزل تک پہنچ سکتا ہے، اور وہی یقیناً جاہل سے برتر ہے۔
اسی لیے سالکِ علم کے لیے ولایت کے آستانے پر، خصوصاً امیرالمؤمنین علیہالسلام کے حضور، خاکساری صرف مستحب نہیں بلکہ فرض ہے، تاکہ وہ خود بھی منزل تک پہنچ سکے اور دوسروں کو بھی پہنچا سکے۔
اگرچہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کا محض ایک قطرہ قلم بند ہوا، لیکن حقِ مدح ادا تو اس مسیحی شاعر عبدالمسیح انطاکی نے کیا، جب اس نے کہا:
و اصفح أبا حَسَنٍ عَمَّن تَجَرا عَن
حُب عَلَی مِدْحَةٍ تَسمُو مَبَانِیهَا
لَو لَم أکُن طَامِعاً فی رحبِ صَدرِکَ مَا
حاولتُ و اللهِ أن أروی قَوافیها
“اے ابو الحسن! اس جسارت کو معاف کر دو کہ محبتِ علی نے مجھے مجبور کیا کہ میں تمہاری مدح کرنے کی کوشش کروں۔ میں کون اور مدحِ علی کون!
خدا کی قسم، اگر مجھے آپ کی وسعتِ قلب سے امید نہ ہوتی، تو میں کبھی آپ کی تعریف کرنے کی جرأت نہ کرتا۔”
(ملحمة الامام علی او القصیدة العلویة المبارکة، ص ۱۹)









آپ کا تبصرہ