حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین سید علیرضا تراشیون نے ایک سوال و جواب میں "گھر کے بڑے بیٹے کی آزار رسانی پر قابو پانے" کے موضوع پر گفتگو کی ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: میرے تین بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا تیرہ سال کا ہے اور اپنے چھوٹے بھائیوں کو تنگ کر کے خوشی محسوس کرتا ہے۔ اسے بارہا سمجھایا اور حتیٰ کہ ڈانٹ ڈپٹ اور سزا کی دھمکی بھی دی، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا اور وہ اب بھی یہ نامناسب رویہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
جواب:
اکثر والدین بچوں کے رویے کو معمولی شرارت سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب جلد خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ زیادہ تر موقعہ پر یہی ہوتا ہے، لیکن موجودہ صورتِ حال میں والدین کی پریشانی بالکل بجا ہے، کیونکہ اگر بچہ واقعی دوسروں کو اذیت دے کر خوش ہوتا ہے تو یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور مستقبل میں "آزار پسند رویّے" کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
تاہم یاد رکھیں کہ زیادہ تر بچے ایک دوسرے کو چھیڑنا کھیل سمجھ کر کرتے ہیں اور اس کا تعلق کسی نفسیاتی بیماری سے نہیں ہوتا۔
ایسی صورت میں والدین کے لیے چند اہم ہدایات درج ذیل ہیں:
1. دھمکی اور سزا سے مکمل پرہیز
بچے کو دھمکانا، ڈانٹنا یا سزا دینا ہرگز فائدہ مند نہیں۔ اس طرح کا رویہ اُلٹا بچے کی آزار رسانی کو بڑھا سکتا ہے اور بعض اوقات اسے سادیسم (آزارپسندی) جیسی سنگین عادت کی طرف لے جا سکتا ہے۔
2. مشترکہ کھیل اور سرگرمیوں کا اہتمام
چونکہ گھر میں تین بچے ہیں، اس لیے والدین کو چاہیے کہ گھر کے اندر یا باہر ایسے گروہی کھیلوں اور سرگرمیوں کا انتظام کریں جو سب کو مصروف رکھیں اور ان کی توانائی مثبت ماحول میں خرچ ہو۔
ایسے کھیل انتخاب کریں جو: بچوں کے درمیان تعاون اور میل جول بڑھائیں، ہر مرحلے میں مختلف راستے اور فیصلے شامل ہوں
سوچ، فیصلہ سازی اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کو مضبوط کریں۔
قدرتی بات ہے کہ کھیل کے دوران بچے ایک دوسرے کو چھیڑ بھی سکتے ہیں، اور یہ سیکھنے اور سماجی تعامل کا حصہ ہے؛ اسے ضرورت سے زیادہ سنجیدہ نہ لیا جائے۔
3. عملی اور معاشی مہارتوں کی تربیت
اگر ممکن ہو تو والدین بڑے بیٹے کو اپنے ساتھ مناسب ورکشاپ، ہنر سیکھنے کی جگہ یا کسی عملی ماحول میں لے جائیں، تاکہ: وہ گھریلو تناؤ اور منفی ماحول سے دور ہو، عملی اور معاشی مہارتیں سیکھ سکے
زندگی کا حقیقی تجربہ اور بنیادی معاشی سمجھ بوجھ حاصل کرے۔ بہتر یہ ہے کہ اسے صرف دکان یا کیش کاؤنٹر کے بجائے خدماتی یا پیداواری ماحول میں رکھا جائے، تاکہ اس کی ذمہ داری، تخلیقی سوچ اور ہنر سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہو۔









آپ کا تبصرہ