حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یہ سوال اکثر ذہنوں میں آتا ہے کہ اگر کوئی عورت بےحجاب ہو لیکن اس کے دیگر اعمال نیک ہوں تو کیا پھر بھی وہ جہنم کی مستحق ہوگی؟
اس سوال کا جواب دو بنیادی نکات کو سمجھنے میں پوشیدہ ہے:
اوّل، دینِ اسلام میں حجاب کی حیثیت ایک دینی ضرورت کے طور پر،
دوم، آخرت میں اعمال کے مجسم ہونے (تجسمِ اعمال) کا بنیادی عقیدہ۔
اسی تحریر میں اس سوال کا تفصیلی جواب پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: کیا ایک بےحجاب عورت، باوجود اس کے کہ اس کے دوسرے اعمال اچھے ہوں، پھر بھی جہنم میں جائے گی؟ جبکہ بسا اوقات بعض باحجاب خواتین کے دیگر اعمال درست نہیں ہوتے!
مختصر جواب:
قرآنِ مجید کی آیات، معصومینؑ کی روایات اور ان کی سیرت اس حقیقت کو بالکل واضح کر دیتی ہیں کہ حجاب اور عفت کا مسئلہ دینِ اسلام کے بنیادی اور ضروری احکام میں سے ہے۔
لہٰذا حجاب کو ترک کرنا گناہ ہے اور اس پر عذابِ الٰہی مترتب ہوتا ہے۔
اسی سلسلے میں رسولِ اکرم (ص) اور امیرالمؤمنین علیؑ سے ایسی احادیث بھی نقل ہوئی ہیں جن میں بےحجاب عورتوں کے اخروی انجام کا ذکر موجود ہے۔
مزید یہ کہ بےحجابی کا اخروی عذاب دراصل خود انسان کے اعمال ہی کا مجسم ہونا ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق، آخرت میں کوئی شخص اپنے اعمال کے نتائج سے فرار حاصل نہیں کر سکتا۔
یہی اصول اُن باحجاب عورتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو اپنی زندگی میں دیگر گناہوں کی مرتکب رہی ہوں؛ وہ بھی اپنے برے اعمال کے مطابق عذاب کا سامنا کریں گی۔
تفصیلی جواب:
اسلامی فقہ کے مطابق عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے پورے جسم کو (سوائے چہرے اور ہاتھوں کے، کلائی تک) ڈھانپے۔ اس حکم میں کسی قسم کا اختلاف نہیں۔
قرآن کی آیات، معصومینؑ کی روایات، ان کی عملی سیرت اور مسلمانوں کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ حجاب اسلام کے اہم ترین ضروری احکام میں سے ایک ہے۔
کوئی بھی مسلمان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ اس حکم کی اہمیت سے بےخبر ہے۔ تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ عورتوں کی پردہ داری ہمیشہ سے اسلامی معاشروں کی نمایاں علامت رہی ہے۔
بےحجابی پر وارد ہونے والے عذاب سے متعلق احادیث
چنانچہ عورتوں کے لیے مکمل اسلامی حجاب اختیار کرنا ایک واجب دینی فریضہ ہے، اور اس کو ترک کرنا گناہ ہے جو عذابِ الٰہی کا باعث بنتا ہے۔
اہلِ بیتؑ سے منقول متعدد احادیث میں اس عذاب کی صراحت ملتی ہے۔
مثال کے طور پر، ایک طویل حدیث میں رسولِ اکرم ص نے شبِ معراج کے مناظر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ایک عورت کو دیکھا جو اپنے بالوں سے لٹکائی گئی تھی اور اس کے سر کا دماغ شدتِ حرارت سے کھول رہا تھا، اور ایک عورت کو دیکھا جو اپنے ہی جسم کا گوشت کھا رہی تھی اور اس کے نیچے آگ جل رہی تھی۔
نبی (ص) نے وضاحت فرمائی کہ جو عورت اپنے بالوں سے لٹکی ہوئی تھی وہ دنیا میں نامحرم مردوں سے اپنے بال نہیں چھپاتی تھی، اور جو عورت اپنا گوشت کھا رہی تھی وہ وہی تھی جو دنیا میں اپنے جسم کی نمائش کیا کرتی تھی۔
اسی طرح امیرالمؤمنین حضرت علیؑ نے آخری زمانے کی عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ بےپردہ، خودنمائی کرنے والی، دین سے دور، خواہشات کی پیروی کرنے والی اور حرام کو حلال سمجھنے والی ہوں گی، اور ان کا انجام جہنم میں دائمی عذاب ہوگا۔
ایک اہم سوال
ان احادیث کو سن کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں ایسی عورت جو دیگر نیک اعمال بھی انجام دیتی ہو، صرف بےحجابی کی وجہ سے اتنے سخت انجام سے دوچار ہو؟
کیا یہ بات عقل و منطق کے مطابق ہے؟
اس سوال کے جواب کے لیے ضروری ہے کہ ہم تجسمِ اعمال کے عقیدے کو مختصراً سمجھیں۔
تجسمِ اعمال
تجسمِ اعمال اسلامی تعلیمات کا ایک مستند اور بنیادی نظریہ ہے، جس پر مفسرین، علما اور متکلمین نے تفصیلی بحث کی ہے۔
قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر واضح کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان اپنے اعمال کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔
مثلاً سورۂ زلزال میں فرمایا گیا ہے کہ جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کے سامنے آ جائے گی۔
اسی طرح سورۂ آلِ عمران میں ارشاد ہوتا ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے کیے ہوئے اعمال کو حاضر پائے گا۔
احادیث میں بھی اس حقیقت کو کھل کر بیان کیا گیا ہے۔
رسولِ اکرم ص نے فرمایا کہ ہر انسان کے ساتھ قبر میں اس کا عمل ہی اس کا ساتھی ہوگا؛ اگر وہ نیک ہوگا تو انسان کے لیے باعثِ راحت ہوگا، اور اگر برا ہوگا تو باعثِ وحشت اور عذاب بنے گا۔
امام جعفر صادقؑ بھی فرماتے ہیں کہ مؤمن جب قبر سے اٹھے گا تو اس کے نیک اعمال ایک خوشنما صورت میں اس کے ساتھ ہوں گے اور اسے جنت کی خوشخبری دیں گے۔
یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ انسان اپنے اعمال سے کبھی جدا نہیں ہو سکتا۔
نیک اعمال راحت اور سکون کی صورت میں، اور برے اعمال عذاب اور تکلیف کی صورت میں انسان کے سامنے مجسم ہو جاتے ہیں۔
بےحجاب عورتوں کے عذاب کی نوعیت
موضوعِ تجسمِ اعمال سے متعلق جو توضیحات بیان کی جا چکی ہیں، ان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ احادیث میں بےحجاب عورتوں کے لیے جن دردناک سزاؤں کا ذکر آیا ہے، وہ ان کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی، انتقام یا بغض و کینہ کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ یہ عین ان کے اپنے اعمال کا براہِ راست نتیجہ اور انہی اعمال کا مجسم ہونا ہے۔
اصولی طور پر انسان کا ہر نیک یا برا عمل "چاہے دنیا میں ہو یا آخرت میں" لازمی اور ناگزیر اثرات و نتائج رکھتا ہے، جن سے کوئی بھی شخص ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا۔
مثال کے طور پر، بےحجابی اور عفت و حیا کی رعایت نہ کرنا، دنیا میں درج ذیل نتائج کا سبب بنتا ہے:
الف۔ مردوں کی جنسی خواہشات کو بھڑکانا
عورتوں کی بےپردگی، مردوں خصوصاً نوجوانوں کو مسلسل جنسی ہیجان کی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کے اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں اور بیمار قسم کے ذہنی و نفسیاتی اضطرابات پیدا ہوتے ہیں۔
جنسی غریزه انسان کا سب سے طاقتور غریزه ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ یہی غریزه بہت سے ہولناک جرائم اور خونریز واقعات کا سرچشمہ بنا ہے، یہاں تک کہ یہ کہا گیا ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی بڑا حادثہ ایسا ہو جس میں کسی عورت کا کردار شامل نہ ہو۔
بےحجابی اور برہنگی کے ذریعے اس غریزه کو مسلسل ہوا دینا اور اسے بھڑکاتے رہنا، درحقیقت آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
ب۔ طلاق میں اضافے کے ذریعے خاندانی نظام کو شدید نقصان
مستند اور قطعی اعداد و شمار سے یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے کہ دنیا میں جوں جوں بےپردگی میں اضافہ ہوا ہے، اسی تناسب سے طلاق اور ازدواجی زندگی کے بکھرنے کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بےحجابی سرکش خواہشات کو جنم دیتی ہے اور انسان کو ہر قیمت پر اپنی ہوس کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ نتیجتاً انسان ہر روز کسی نئے دلربا کا اسیر ہو جاتا ہے اور پچھلے تعلقات کو خیر باد کہہ دیتا ہے۔
برہنگی کی اس نام نہاد ’’آزاد منڈی‘‘ میں، جہاں عورتیں (کم از کم غیر جنسی سطح پر ہی سہی) ایک مشترکہ جنس بن جاتی ہیں، ازدواجی رشتے کی حرمت اور تقدس کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا۔
یوں خاندان مکڑی کے جالے کی طرح تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور بےسہارا بچے معاشرے کا المیہ بن جاتے ہیں۔
ج۔ فحاشی اور ناجائز اولاد جیسے سنگین سماجی خطرات
بےحجابی کے سب سے دردناک نتائج میں فحاشی کا پھیلاؤ اور ناجائز اولاد کا بڑھ جانا شامل ہے۔
یہ مسئلہ بے شمار جرائم اور سماجی بگاڑ کی جڑ ہے۔ معاشرے کے امن و امان کے لیے ناجائز اولاد سے پیدا ہونے والے خطرات اس حد تک سنگین ہیں کہ بہت سے فوجداری مقدمات میں ان کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔
فحاشی کا پھیلاؤ حتیٰ کہ اُن لوگوں کے لیے بھی ایک تباہ کن سانحہ ہے جو مذہب یا اخلاقی ضوابط کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ بےحجاب عورتیں، چاہے واقعی ان سماجی بگاڑوں اور مسائل کو پیدا کرنے کی نیت نہ بھی رکھتی ہوں، پھر بھی ان کے نتائج اور تباہ کن اثرات کی ذمہ داری سے خود کو بری نہیں کر سکتیں۔
کیونکہ یہ نقصانات بےحجابی کے فطری اور براہِ راست نتائج ہیں، چاہے وہ عورت ذاتی طور پر نیک اخلاق اور اچھے اعمال ہی کی حامل کیوں نہ ہو۔
اخروی انجام بھی اسی اصول کے تابع ہے
آخرت میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ چونکہ انسان کے اعمال وہاں جسم اختیار کر لیتے ہیں، اس لیے انسان لازماً ایک دن انہیں یا تو عظیم نعمت کی صورت میں دیکھے گا یا دردناک عذاب کی شکل میں۔
بےحجاب عورتیں بھی آخرت میں اپنے اعمال کے مجسم شدہ نتائج سے دوچار ہوں گی۔
اعمال کی سزا یا جزا گناہ کی نوعیت کے عین مطابق ہوتی ہے، کیونکہ اس قانون کا بنانے والا اور نافذ کرنے والا خود خداوندِ عالم ہے۔
وہ بےحجاب اور بدحجاب عورتیں "جو صحیح دینی تربیت، اسلامی تعلیمات اور الٰہی احکام سے واقف ہونے کے باوجود عفت و حیا کے راستے کے بجائے شیطانی وسوسوں کو ترجیح دیتی ہیں" اپنی زیب و زینت اور جسمانی نمائش کے ذریعے انسانیت کے الٰہی چہرے پر بدترین زخم لگاتی ہیں۔
وہ دانستہ یا نادانستہ طور پر اُن تمام تربیتی منصوبوں کے خلاف کھڑی ہو جاتی ہیں جو خداوندِ متعال نے فرد اور معاشرے کی اصلاح کے لیے مقرر کیے ہیں، اور اس طرح سماجی بگاڑ اور اخلاقی انحراف کے پھیلاؤ میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔
لہٰذا انہیں ان سماجی مفاسد کی ذمہ داری کو بھی قبول کرنا ہوگا، جیسا کہ اوپر وضاحت کی جا چکی ہے۔
آخری نکتہ
یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دیگر شعبوں میں نیک اعمال یا درست فکری سوچ، اس الٰہی اور سماجی ذمہ داری میں کوتاہی کا ازالہ نہیں کر سکتی۔
کیونکہ قیامت کے دن ہر وہ عمل جو ناصالح ہوگا، وہی مجسم ہو کر انسان کا دامن پکڑ لے گا۔
اسی لیے: نہ کوئی بےحجاب عورت اپنے دیگر نیک اعمال کے سہارے اپنے اس غلط عمل کی ذمہ داری سے بچ سکتی ہے، اور نہ ہی کوئی باحجاب عورت صرف حجاب کی پابندی کی بنا پر اس بات کی ضمانت رکھتی ہے کہ اس کے دیگر برے اعمال آخرت میں اس کا پیچھا نہیں کریں گے۔









آپ کا تبصرہ