۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
حافظ ریاض حسین نجفی

حوزہ/ حجت الاسلام والمسلمین سید ریاض حسین نجفی نے عظمت توحیدبیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر کام کاآغاز اللہ کے نام سے ہو اور ہر کام اللہ کیلئے ہو نا چاہئے۔یہ توحید میں اخلاص کی حدہے کہ شرک کو ناقابل معافی گناہ قرار دیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر حجت الاسلام والمسلمین حافظ سید ریاض حسین نجفی نے عظمت توحیدبیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر کام کاآغاز اللہ کے نام سے ہو اور ہر کام اللہ کیلئے ہو نا چاہئے۔یہ توحید میں اخلاص کی حدہے کہ شرک کو ناقابل معافی گناہ قرار دیا گیا۔پیغمبر اکرم کی دعوت اورعبادت فقط خدا کیلئے تھی۔ ان کی تعلیمات کا خلاصہ توحید پرستی اور ہر حال میںاللہ کو پیش نظر رکھنا ہے۔اللہ تعالیٰ کی قدرت ِ کاملہ اور عظمت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔قرآن مجید میں ارشادہے کہ امیر، غریب، بادشاہ، سرمایہ دار، مسلمان، اورغیر مسلمان تمام انسان اللہ کے سامنے فقیر اور اس کے محتاج ہے۔انسانوں کا خالی ہاتھ دنیا میں آنا اور خالی ہاتھ جانا اِسی با ت کا ثبوت ہے۔زندگی کے تمام میدانوں، خصوصاً حکومت سے متعلقہ امورمیں اصول پرستی کی شدید ضرورت ہے۔

جامع علی مسجد جامعتہ المنتظرمیں خطبہ جمعہ میں انہوں نے کہا کہ یکم اگست کو سینیٹ میں جو کچھ ہوایہ اصول پرستی کا فقدان اور ناپختہ کاری ہے۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا 22 کروڑ عوام کے نمائندوں کو ایسا ہونا چاہیے؟ لازم ہے کہ یہ نمائندے ہر لحاظ سے بالغ النظر، اصول پرست اور مثالی نمونے ہوں لیکن جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔

انھوں نے نماز جمعہ کے اجتماع میں قرارداد مذمت کی منظوری دیتے ہوئے نائجیریا کے بزرگ عالم دین الشیخ ابراہیم زکزاکی کی رہائی کیلئے مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس حملہ کے نتیجہ میں 10 افراد کی شہادت اورسانحہ کی مذمت کی گئی اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیاگیا۔قرارداد میں بحرین میں دونوجوانوں کو سرکاری تحویل میں تشددسے شہید کرنے کا بین الاقوامی اداروں، حکومت پاکستان، سیاسی و مذہبی جماعتوں سے نوٹس لینے اور نائجیریا اور بحرین میں جاری اِ ن مظالم کے خلاف آواز بلند کامطالبہ بھی کیا گیا۔

خطبہ جمعہ میں علامہ حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ اعلان ِ بعثت سے پہلے بھی رسول اللہ فقط ایک خدا کی عبادت کرتے تھے جس میں اُن کے ساتھ حضرت خدیجہ(س) اور امیر المومنین حضرت علی ؑ ہوا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ حضرت آدم ؑ کے قصہ میں بہت زیادہ عبرتیں ہیں۔وہ بہت عظمت کے مالک تھے لیکن ایک چھوٹی سی بات کی وجہ سے انہیں جنت سے نکلنا پڑا۔اِس میں ہمارے لیے یہ درس ہے کہ فقط صراط مستقیم پر چلیںاور ابلیس کے کسی بہکاوے میں نہ آئیں۔قرآن مجیدمیں ابلیس کے بارے الفاظ ہیں کہ ”کان من الکافرین“وہ کافروں میں سے تھا۔ جس کی ایک تشریح یہ کی جاتی ہے کہ وہ دراصل تھا ہی کافر لیکن عبادات کی وجہ سے اس کا کفر دب گیا تھااور جب اللہ تعالیٰ نے اسے آزمایا تو اس نے نافرمانی کی، تکبر کیا اور اس کا چھپا ہوا کفر ظاہر ہو گیا۔ حضرت آدم ؑ کے بارے بھی قرآنی آیات کو صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ان کا اپنے اوپر ظلم کے اعتراف کا مطلب اپنے نقصان کا اعتراف ہے۔ظلم یعنی نقصان، کہ وہ پہلے جنت میں تھے، ہر قسم کی نعمت سے مستفید تھے مگر ابلیس کے بہکاوے میں آکر نعمات ِ جنت سے محروم ہو کر نقصان اٹھایا۔ابلیس کے تکبر کی اہم وجہ اس کایہ قیاس تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے چونکہ آگ اوپر کی طرف جاتی ہے جبکہ مٹی پستی کی طرف گرتی ہے چونکہ وہ آگ سے بنا ہے لہٰذا وہ مٹی سے بنائے ہوئے آدم سے افضل ہے۔امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس تھا۔انہوں نے کہا کہ زندگی کے تمام میدانوں، خصوصاً حکومت سے متعلقہ امورمیں اصول پرستی کی شدید ضرورت ہے۔اِس میدان میں آنے والوں کی بنیاد اچھے اصولوں کی پابندی اور اس پر استقامت سے قائم رہناہے۔امیر المومنین حضرت علی ؑ کو جب چند شرائط ماننے کی بنا پر وہ وسیع و عریض اسلامی حکومت سنبھالنے کی پیشکش کی گئی جس کی سرحدیں ملتان و ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھیں تو آپ نے صاف انکار فرما دیا۔گویا ان کے نزدیک اصول اہمیت رکھتے تھے نہ کہ وسیع و عریض حکومت ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .