حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ ناانصافی اور معاشرتی بگاڑ کی ایک اہم وجہ قرآن سے دوری ہے۔ جب قرآن پڑھا جائے تو ہر طرف سے لاتعلق ہوتے ہوئے اِسے مکمل توجہ اور انہماک سے سنا جائے تاکہ اللہ کی رحمت نازل ہو۔ قرآن سے انس انسان کیلئے موجب ِ نجات ہے۔جس قدر تلاوت کی جائے گی اتنا ہی ایمان میں اضافہ ہوگا۔ امیر المومنین حضرت علی ؑ کا فرمان ہے قرآن کے ہمنشین بنو ، اِس سے دوستی پیدا کرو،اِس کے نتیجہ میں ایمان میں زیادتی اور گمراہی میں کمی ہوگی ۔ہر حال میں اللہ کی یاد کی تاکید کی گئی ہے۔ بلند آواز کی بجائے آہستہ سے تضرع و زاری اور بعض اوقات خاموشی سے اپنے نفس کے اندربھی اللہ کی یاد زندہ رکھی جائے۔اللہ تعالیٰ کو دعا بے حد پسند ہے۔دعاسے غفلت اور لاپرواہی ٹھیک نہیں ہے۔اگر دعا کی حالت میں آنسو آجائیں تو یہ خلوص کی نشانی اور قبولیت کی علامت ہے۔اِس سے تکالیف دور ہو جاتی ہیں۔
جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 114 سورتوں میں سے بعض جانوروں کے ناموں پر ہیں جیسے الانعام یعنی جانور ، بقرہ یعنی گائے۔ ایک سورہ نمل یعنی چیونٹی کے نام پر بھی ہے۔بعض سورتیں انبیاءکے نام پر بھی ہیں جیسے سورہ محمد ، یوسف،ابراہیم،یونس۔ کچھ سورتوں کے نام اوقات کے لحاظ سے ہیں جیسے اللیل ، فجر ، ضحیٰ( دن کا پہلا حصہ)،بعض سورتیں آنحضور کی صفات کے حوالے سے ہیں جیسے یٰسین، مزمل ، طہٰ، مدثر۔ان کا کہنا تھاکہ نزول ترتیبی کے لحاظ سے سورہ جِن چالیسویں نمبر پر ہے۔کئی مقامات پر جنوں کے ایمان لانے کا تذکرہ ہے۔" جن "کے نام سے فقط یہی ایک سورہ ہے۔ اِس کے بارے دو روایات ہیں۔ ایک یہ کہ ٓا نحضور مکہ سے 100 کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک مقام پر تشریف لے گئے جہاں عکاظ کا میلہ لگتا تھا۔وہاں آپ نے رات بسر کی اور نمازِ تہجد کے وقت لمبی سورتیں پڑھیں جنہیں سن کر جِن ایمان لائے۔نماز ِ تہجد حضرت پر واجب تھی جس میں آپ لمبی سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے جبکہ ہم لوگ اِس نماز کے بے حد فوائد کے باوجود مختصر سورتوں پر اکتفاءکرتے ہیں۔دوسری روایت یہ ہے کہ آنحضور حضرت خدیجہ الکبریٰ اور حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد طائف تشریف لے گئے۔ تھک کر ایک باغ کے سائے میں آرام فرمایا۔باغبان نے آپ کو پھل پیش کیے اور آپ کا پیغام سن کر اسلام قبول کیا۔ رات کو وہیں قیام کیا۔تہجد کے وقت جِن آپ کے پاس آئے، جنہیں قرآن میں “نفر” کہا گیا جس سے مراد 3 سے 7یا 3 سے 10 افراد ہوتے ہیں۔وہ آپ پر ایمان لائے۔جِنوں کی خلقت انسان سے پہلے ہوئی جنہیں آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا۔انسان اور جِن دونوں عبادت کیلئے خلق کیے گئے ہیں۔شیطان ابلیس بھی جِن تھا۔ قرآن مجید میں 75 مرتبہ اِسے شیطان کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بھی عبادت گزار تھا۔جِن بھی فرشتوں کی طرح لطیف اور نظر نہ آنے والی مخلوق ہے۔ وہ ہمیں دیکھتے ہیں مگر ہم ان کو نہیں دیکھ سکتے۔