حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آیت الله محمد جواد فاضل لنکرانی نے مکہ مکرمہ میں جشن غدیر اور ایرانی حجاج کے اجتماع سے خطاب میں مسئلہ ولایت کی اہمیت پر زور دیا اور کہا: جشن عید غدیر کو زور و شور کے ساتھ منانا چاہئے چونکہ غدیر کی معرفت خداوند کریم کی طرف سے انسان اور مسلمانوں کے لئے ایک عظیم نعمت کا درجہ رکھتی ہے۔
جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ کے رکن نے کہا: غدیر کا مقصد صرف یہ نہ تھا کہ پیغمبر اکرمﷺ نے لوگوں سے حضرت علی(ع) سے صرف دوستی کو طلب کیا ہو چونکہ یہ تو پہلے بھی کئی بار ارشاد فرما چکے تھے اور اسی طرح مسئلہ غدیر صرف قلبی اعتقاد کا ہی نام نہ تھا کہ اس پر ایمان لے آئیں اور بس، بلکہ یہ مسئلہ نہایت ہی اہمیت کا حامل اور صرف دوستی سے کئی درجے بالاتر مقام رکھتا تھا۔
انہوں نے کہا: بعض مذہب ولایت کی ایک دوسری طرح تعریف کرتے ہیں۔ ان مذاہب کے بقول کوئی بھی شخص حتی کہ فاسق و فاجر بھی خدا کا جانشین ہوسکتا ہے۔
مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع) کے سرپرست نے مزید کہا: غدیر میں اس مطلب کا اعلان تھا کہ انسان فقط خدا کی اطاعت کرے اور تاکہ وہ شیطان کے چنگل میں اور اسی طرح کسی دوسرے منحرف گروہ وغیرہ کی طرف نہ جائے۔ یہی غدیر کا معنی ہے۔
انہوں نے سورۂ مائدہ کی درج ذیل آیات (یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَیٰ أَوْلِیَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) کی تلاوت کرتے ہوئے کہا: اے مسلمانو! یہود و نصاریٰ کو اپنا صاحب اختیار نہ بناؤ اور اگر مجھ سے پوچھو کہ کس شخص کو ’’ولی خدا‘‘ بنائیں تو میں کہوں گا کہ فقط ’’ولایت خدا‘‘ کے سائے میں آؤ۔
آیت اللہ فضل لنکرانی نے کہا: غدیر کا مقصد یہ تھا کہ تاکہ لوگوں کو یہ سمجھایا جا سکے کہ ’’حکومت و اختیار‘‘ صرف خدا، رسول اللہ(ص) اور حضرت علی(ع) کے ساتھ مختص ہیں۔ یہ شیعہ امامیہ کا عقیدہ ہے کہ ’’ من اطاع الرسول فقط اطاع الله‘‘ ۔ یہاں غدیر خم میں کوئی ظاہری جانشین کی بات نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد خدا، پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت علی(ع) کی ولایت کو قبول کرنا تھا۔